پلاسٹک کے خاتمہ میں کاروباری اداروں کا کردار

March 21, 2022

دنیا میں تیار ہونے والا 80 فی صد سے زائد ہر قسم کا پلاسٹک، فضلہ کی شکل میں ہمارے ماحول کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ عالمی سطح پر پلاسٹک بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے متعارف ہونے والے اب تک کے ضوابط (یہ جس بڑے پیمانے کا بحران ہے) اس کے خلاف پائیدار اور ٹھوس حل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مختلف پلیٹ فارم پر، عالمی برادری کے تمام تر وعدوں اور دعوؤں کے باوجود، تازہ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ 2040ء تک نئے پلاسٹک کی پیداوار دُگنی ہوجائے گی۔

اس صورتِ حال کا حل ایک وسیع پیمانے کے بین الاقوامی فریم ورک کے لیے عالمی برادری کا غیر مشروط تعاون ہوسکتا ہے، جو دنیا کو پلاسٹک آلودگی کے خاتمے اور پلاسٹک کے استعمال کے لیے ایک پائیدار اور سرکلر مستقبل کے لیے ایک ماڈل بنانے کے لیے بہترین امید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے، پلاسٹک کی آلودگی کا حل جزوی اور ارادے و عزم سے عاری معاہدوں کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے، جن کے مقاصد دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ہوتے ہیں، جس کی بڑی وجہ عالمی سطح پر توثیق شدہ اور مناسب طریقے سے نافذ ایک بین الاقوامی ضابطہ کار کی عدم موجودگی ہے۔

تمام سرکردہ معیشتوں سمیت دنیا کی 160 سے زیادہ حکومتیں، دنیا کو پلاسٹک بحران سے بچانے کے لیے ایک نئے معاہدے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اگر سربراہانِ مملکت، پلاسٹک آلودگی کے مسئلہ کو حل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں، تو انہیں عالمی معاہدے تک پہنچنے اور اس پر عمل درآمد میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

کاروباری ادارے مسئلہ کے حل کا حصہ

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کاروبار ادارے اس بحران کے حل کا حصہ بن سکتے ہیں اور انھیں اس کا حصہ ضرور بننا چاہیے۔ تیار ہونے والے ہر طرح کے پلاسٹک کا بالآخر فضلہ میں شامل ہونا اور ماحولیات کی خرابی کا حصہ بننا اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، اب اس کی جگہ سرکلر ماڈلز اور مصنوعات نے لے لی ہے۔

پلاسٹک کے مکمل لائف سائیکل کے لیے اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ادارہ میں پیرو اور روانڈا کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر عمل درآمد، پلاسٹک کے صفر فضلے کی طرف کاروباری اداروں کی کوششوں کی حمایت کرنے کے لیے واقعی ضروری ہے۔

پلاسٹک بحران پر ایک ٹھوس لائحہ عمل

اس طرح، تمام فریقین کے لیے واضح طور پر بیان کردہ اور متناسب ذمہ داریوں کے ساتھ ایک پابند لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے، جوکہ ہمارے سیارے اور کاروباری اداروں کے مفاد میں ہے۔ ایسے مجوزہ لائحہ عمل کے دائرہ کار میں پلاسٹک کے لیے پائیدار ماڈل کے تمام پہلوؤں (یعنی کمی، دوبارہ استعمال، ری سائیکلنگ اور ختم کرنا) کو شامل کرنا چاہیے تاکہ ویلیو چین میں جدت اور سبز بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ایک مساوی میدان تیار کیا جاسکے۔

پلاسٹک اور سمندری حیات

حال ہی میں پلاسٹک فضلے کے سمندری حیات پر اثرات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی تحقیقی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کو ایک معروف جرمن ادارے آلفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سےتیار کیا گیا ہے اور اس موضوع پر 2590 سائنسی مطالعات کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ سمندر میں پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کا احاطہ کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل میںپلاسٹک کے جزیرے بن چکے ہیں، جو پلاسٹک کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں سے تشکیل پائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سطح سمندر سے لے کر اس کی گہرائی تک، قطبین سے لے کر دور دراز کے ساحلوں اور جزائر تک تقریباً ہر سمندری حصے میں پلاسٹک پایا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں سے لے کر وہیل مچھلیوں کے پیٹ تک میں سے پلاسٹک ملا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا ہے کہ گھونگھوں، شیل فش اور سیپیوں تک میں بھی پلاسٹک کا مواد پایا گیا ہے۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار 2040ء تک دوگنی ہو جائے گی اور اس سے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے میں چار گنا اضافہ ہو گا۔ امریکا سے تعلق رکھنے والی اور پلاسٹک کی آلودگی پر تحقیق کرنے والی جینا جیمبیک کی ٹیم نے اندازہ لگایا ہے کہ80 لاکھ ٹن کچرا ہر سال سمندروں میں جا گرتا ہے۔ یہ مقدار دنیا بھر کے سمندری ساحلوں کے ہر ایک میٹر پر 15 شاپنگ بیگ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

جیمبیک کا کہنا ہے کہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے طریقوں سے نمٹے بغیر سمندروں سے کچرا نکالنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کا نلکا کھلا ہو اور نہانے کے ٹب سے پانی بہہ رہا ہو اور فرش کو کپڑے سے خشک کیا جا رہا ہو۔

سمندروں میں گرنے والے کچرے کی ایک بہت بڑی مقدار صارفین کے استعمال میں آنے والا پلاسٹک ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خرابی کے ذمہ دار کھانے کی چیزوں پر لپٹا ہوا پلاسٹک، مشروبات کی بوتلیں اور اُن کے ڈھکن، پلاسٹک بیگ اور سگریٹ کے وہ ٹوٹے ہیں جن کے فلٹر سیلولوز ایسیٹیٹ نامی ایک قسم کے پلاسٹک سے تیار کیے جاتے ہیں۔ جب دھوپ اور سمندر کے نمکین پانی سے پلاسٹک ٹوٹ کر ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اِنہیں سمندری جاندار کھاتے ہیں اور یہ خوراک کے سلسلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پلاسٹک آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے بحیرہء ذرد، مشرقی بحیرہ چین اور بحیرہ روم ہیں۔ یہ علاقے ابھی سے اُس حد تک پہنچ چکے ہیں، جتنے پلاسٹک ذرات ایک سمندری علاقہ جذب کر سکتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ایریک لینڈے برگ کے مطابق، اگرچہ ماہی گیری بھی سمندری آلودگی کی ایک اہم وجہ ہے لیکن بنیادی مسئلہ ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے پھیلاؤ کا ہے۔

پلاسٹک روز بروز سستا ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے اس سے بنی اشیا کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگر صورتحال میں تبدیلی نہ لائی گئی تو ’ایکو سسٹم تباہ‘ ہو سکتا ہے، جس سے سمندری خوراک کا نظام مکمل طور پر متاثر ہو گا۔ دنیا میں پلاسٹک کا کچرا اتنا پھیل چکا ہے کہ سمندر کی گہرائی، پہاڑوں کی اونچائی، انسانوں کے اعضاء کے اندر اور نواحی اور غیر آباد جزیروں پر بھی پلاسٹک کا کچرا نظر آتا ہے۔

’کائی‘ کچھوے کی کہانی

اقوامِ متحدہ کے سمندروں سے متعلق ادارے کی سربراہ لیزا سوینسن نے کینیا میں کچھووں کے ایک ہسپتال کا دورہ کیا جہاں ان کچھووں کا علاج کیا جاتا ہے جو پلاسٹک نگل کر بیمار پڑ گئے ہوں۔ انھوں نے ہسپتال میں ’کائی‘ نامی ایک کچھوا دیکھا، جسے ایک مچھیرے نے سمندر کی سطح پر پڑا دیکھا تھا۔ اگر کچھوے زیادہ پلاسٹک کھا لیں تو ان کا پیٹ پھول جاتا ہے اور وہ تیر نہیں سکتے۔

کائی کے جسم سے پلاسٹک نکالنے کے لیے دو ہفتوں تک اس کا علاج کیا گیا اور جب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا تو اسے دوبارہ سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔ سوینسن نے کہا، یہ خوشی کا لمحہ تھا لیکن اس کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ دوبارہ پلاسٹک کھا لے۔ یہ بات دل شکن ہے مگر یہی حقیقت ہے۔ ہمیں بہت کچھ کرنا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ سمندر میں پلاسٹک نہ جا سکے۔

پلاسٹک کو کیسے کم کیا جائے؟

ہر ایک اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جیمبیک کا مشورہ ہے کہ:

٭ اگر آپ کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے تو پلاسٹک کی بوتلوں سے اجتناب کریں۔

٭ پلاسٹک کے بنے ہوئے ’اسٹرا‘ (نلکیاں) اور ایک مرتبہ استعمال کرکے پھینک دینے والی پلاسٹک کی چیزوں سے اجتناب کریں۔

٭ خریداری پر جاتے وقت اپنے ساتھ باربار استعمال ہونے والا تھیلا لے کر جائیں۔

٭ باربار استعمال ہونے والی بوتلوں کا انتخاب کریں۔ گل سڑ جانے والے مواد سے بنائی گئی زیادہ تر بوتلوں کو ضائع کرنے کے لیے صنعتی کمپوسٹ پلانٹ درکار ہوتے ہیں۔

٭ جب آپ گھر سے باہر ہوں تو کوڑا کرکٹ اٹھائیں۔ زمین پر پھیلا ہوا کوڑا کرکٹ اکثر سمندر میں جاگرتا ہے۔

جیمبیک کا کہنا ہے، ’’کیوںکہ زیادہ لوگوں کا بڑی بڑی آبادیوں کی شکل میں رہنا اس کا ایک سبب ہے، لہٰذا مندرجہ بالا مجموعی اقدامات سے یقینی طور پر فرق پڑے گا‘‘۔