سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کیسے ہو؟

April 03, 2022

پچھلے دو گھنٹے سے میں اپنے کمپیوٹر کی خالی اسکرین کو گھور رہا ہوں، کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا لکھوں، دو چار فقرے لکھتا ہوں اور پھر کاٹ دیتا ہوں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں، ایسا اکثر ہو جاتا ہے اور اسی کڑے وقت کے لیے میں نے موضوعات کی ایک ٹوٹی پھوٹی سی فہرست بناکر رکھی ہوئی ہے، کچھ نوٹس بھی محفوظ ہیں۔ مگر آج کل ملک میں جس قسم کے حالات ہیں، اُن میں اِن موضوعات کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن کوئی بات نہیں، ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی نہ جانے کیوں مجھے یہ خوش گمانی سی ہے کہ پروپیگنڈا کے اِس دور میں سچائی کی جستجو جاری رہنی چاہیے، اگر کوئی ایک بھی شخص اِس کاوش سے متاثر ہو جائے تو محنت وصول ہو جاتی ہے۔ مصیبت لیکن یہ ہے کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا جھوٹ۔ ابھی صبح ہی میرے دوست ’ایکس‘ نے فون کرکے مجھ سے یہ عجیب و غریب سوال پوچھا کہ بتاؤ تم غدار ہو یا محبِ وطن؟ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اِس سوال کا کیا جواب دوں۔ میں نے اسے کہا کہ آخری مرتبہ جب میں نے چیک کیا تھا تو یہی پتا چلا تھا کہ میں پاکستانی ہوں، میرے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر بھی یہی شناخت لکھی ہے اور الحمدللہ میں کبھی آئین شکنی کا مرتکب بھی نہیں ہوا۔ اِس پر ایکس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ تمہاری باتوں سے غداری کی بُو آرہی ہے۔ حاشا و کلا مجھے نہیں معلوم اُس نے کس بنا پر یہ اندازہ لگایا لیکن اگر پیمانہ یہی ہے کہ غداری اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ محض صوابدیدی اختیار استعمال کرکے جاری کیا جائے گا تو اُس کا حل ماسوائے اِس کے کچھ نہیں کہ آپ اُس شخص کے ہمنوا بن جائیں جس کے پاس یہ اختیار ہے۔ نازی جرمنی میں یہ اختیار ہٹلر کے پاس تھا، روس میں اسٹالن، اٹلی میں مسولینی، چلی میں پنوشے، عراق میں صدام حسین اور رومانیہ میں یہ اختیار چاؤ شسکو کے پاس تھا۔ اِن تمام لیڈران کے مخلص پیروکار یہی سمجھتے تھے کہ اُن کا لیڈر دیوتا ہے، وہ جو کہتا ہے وہی حق ہے، وہی سچ ہے، اُس کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن ہیں، لہٰذا انہیں نیست و نابود کر دینا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے ملک کی محبت میں اور خلوصِ نیت سے یہ سب کچھ کہتے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ اُن کے ذہنوں میں یہ خیالات راسخ کیسے ہوئے جس کی بنا پر انہوں نے یہ سمجھا کہ جو اُن کے نظریات کے ساتھ نہیں وہ ملک دشمن اور غدار ہے؟

اِس سوال کا یک حرفی جواب ہے ’پروپیگنڈا‘۔ بظاہر یہ لفظ منفی لگتا ہے اور اِس کا ترجمہ ہم جھوٹ کے مترادف کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اِس تکنیک کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پروپیگنڈا جھوٹ اور سچ کا ملغوبہ ہوتا ہے جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر لوگوں کے سامنے کچھ یوں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اِس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ کسی حد تک یہ تعریف درست ہے مگر اِس میں ایک باریکی بھی ہے جسے ہم فراموش کردیتے ہیں۔ پروپیگنڈا کرنے والے کا اصل کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے بیانیے کو بہتر اور قابلِ قبول بنا کر عوام کے سامنے یوںپیش کرتا ہے کہ انہیں لگتا ہے جیسے اُن کے پاس اِس بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ جو اپنی عام زندگی میں بے حد کامیاب اور قابل سمجھے جاتے ہیں بعض اوقات جب کسی پروپیگنڈا کا شکار ہوتے ہیں تو اُس وقت وہ کچھ ایسی بے سروپا باتوں کی حمایت بھی کرتے نظر آتے ہیں جن کی حمایت وہ کبھی اپنی عملی زندگی یا عام حالات میں نہ کرتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اِس سارے معاملے میں عقل کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے، کیا ہم عقلی بنیادوں پر دلائل پرکھ کر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کرسکتے ؟ اِس کا سادہ سا جواب ہے، نہیں۔ عملی دنیا میں حتمی سچ یا مطلق جھوٹ کا تعین کرنا مشکل کام ہے، ہم حق اور باطل کو پرکھنے کے پیمانے ضرور بنا سکتے ہیں مگر سیاسی بیانیے کی پڑتال کرتے ہوئے یہ پیمانے کام نہیں آتے کیونکہ ایک عام شہری معاملے کی زیادہ گہرائی میں جانے کا تردد نہیں کرتا، وہ اپنی اخلاقیات یا ضابطۂ حیات ایجاد نہیں کرتا، یہ چیزیں وہ مذہب سے اخذ کرتا ہے یا اپنے رسم و رواج سے، اِس تناظر میں جب اسے کوئی بیانیہ مربوط انداز میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ فقط موٹی موٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ہی اپنا وزن کسی لیڈر کے پلڑے میں ڈالتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کوئی عقلی فیصلہ ہو، یہ محض جذباتی فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اکثر سیاسی لیڈران کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ خود اپنی پالیسیوں کی تشہیر سب سے زیادہ بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ ہو سکتا ہےکہ کسی لیڈر کے پاس یہ ہنر ہو یا وہ یہ ہنر سیکھ لے، جیسے کہ آنجہانی ہٹلر اور جوزف گوئیبلز، اُن سے زیادہ اِس فن کا کوئی ماہر پیدا نہیں ہوا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈر کا ہاتھ بے شک عوام کی نبض پر ہو اور وہ عوام کے لیے عمدہ پالیسیاں بھی بنا سکتا ہو مگر ضروری نہیں کہ وہ یہ بات غیر مبہم انداز میں عوام تک پہنچا بھی سکے۔ اِس کی مثال سیاست کا ’پرفارمنس ماڈل‘ ہے۔ اِس ماڈل میں یہ فرض کر لیا جاتا ہےکہ محض کارکردگی ہی وہ پیمانہ ہے جس پر عوام کسی حکمران کو ’جج‘ کرتے ہیں۔یہ بات کسی حد تک تو درست ہے مگر ایک عام ووٹر محض کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتا۔ کسی لیڈر کی حمایت کرنے کے لیے کارکردگی پیمانہ ضرور ہے مگر اس کے سو میں سے تیس یا پینتیس نمبر ہیں، باقی نمبر اُس بیانیے کے ہیں جو ذہن سازی کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے، اُس میں اگر کوئی لیڈر ناکام ہو جائے تو پھر وہ کارکردگی سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں جتنی انڈسٹری لگی شاید اُس کی مثال نہیں ملتی مگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک جملہ بول کر اِس ترقی کی دھجیاں اڑا دیں کہ ’مجھے اسلام آباد سے پٹ سن کی بُو آتی ہے۔ ‘ یہ اُس بیانیے کی طاقت تھی جس نے ملک ہی توڑ دیا۔ لہٰذا آج اگر کسی نے کامیاب ہونا ہے تو اسے کارکردگی کے ساتھ ساتھ ایسا بیانیہ بھی تشکیل دینا ہوگا جسے اوڑھ کر عام آدمی کو یہ اطمینان ہو کہ اُس کالباس اُس کے ہمسائے سے بہتر ہے!