سب سے بڑا سچ

April 03, 2022

پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور خود کو اس کیلئے ضروری سمجھنے والا کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں۔ کوئی اگریہ سمجھتا ہے کہ وہ نہ ہوا تو ملک کو نقصان پہنچے گا، اس کا تاجِ حکمرانی گرنے یا چھننے سے مسائل جنم لیں گے تو ایسے لوگوں کو اپنے خوابوں کی دنیا سے نکل کر تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے اپنے دامن سے عینک کا شیشہ صاف کرتے ہوئے کہا میرا موضوع گفتگو کسی موجودہ یا سابق حکمران کی حمایت یا مخالفت ہرگز نہیں بلکہ تاریخ انسانیت کی سچائی اور نظامِ کائنات کے وہ آفاقی اصول ہیں جن پر یہ نظام کھڑا ہے۔ یہ ایسا سچ ہے جس کی راہ میں حائل کی جانے والی کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس دنیا میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو فرعون، نمرود، شداد اور ہامان بنے رہے۔ ایک ایک مطلق العنان شخص کئی کئی دہائیاں لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی تقدیر کا بلاشرکت غیرمالک رہا۔ اِس کے جنبشِ ابرو سے سیاہ و سفید کے معانی و مفاہیم بدل جاتے لیکن اس کے جانے یا مر جانے سے دنیا کو بالکل کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں اس کے خاندان میں اقتدار اور مال و دولت کی تقسیم پر مڈبھیڑ ضرور ہوئی۔ بعض دور اندیش اپنے جیتے جی اقتدار اور دولت کے وارثوں کا تعین کر گئے لیکن وقت کے بےرحم قاضی نے اپنے ہی فیصلے صادر کیے۔ عوام کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ زمانہ اپنی رفتار سے چلتا رہا لیکن طاقتور کے اپنے درودیوار کی اینٹیں سرکتی رہیں۔ طوالتِ اقتدار کی ہوس کے بےرحم کھیل میں کسی نے باپ کو مروا دیا تو کسی نے بھائیوں کو۔ کسی نے عورت کا سہارا لیا تو کسی نے کچھ ایسا ہی سہارا دیا مگر یہ طاقتور طبقے کے اپنے گھر کی لڑائی رہی۔ بابا جی نے ایک گہری سانس لی اور بولے، کئی خاندان کئی کئی سو برس اقتدار پر براجمان رہے، ان کا خیال تھا کہ ان کے بغیر دنیا تھم جائے گی، گردشِ ماہ و ایام میں رخنہ پڑے گا، ان کے تخت کے پائے ہلنے سے زلزلے برپا ہو جائیں گے مگر کچھ نہیں ہوا۔ یہاں تو ایسے حکمران بھی رہے جنہیں جن و انس پہ یکساں حقِ حکمرانی میسر رہا۔ جدید سائنسی علوم سے پہلے بھی ہوائیں ان کے تابع فرماں رہیں، چرند پرند اور حشرات الارض ان کو جوابدہ رہے، وہ ہواؤں کا رخ بدلنے پر قادر تھے مگر قادر مطلق نے ان کے انجام کیلئے اسی چیز کا انتخاب کیا جسے وہ اپنا حفاظتی حصار اور طاقت سمجھتا رہا۔ ایک حاکم نے تو اپنی بستی کے سارے بچے اس لیے مروا دیے کہ اسے جادو گروں نے اِس وہم میںڈال دیا تھا کہ کوئی آنے والا بچہ اس کے اقتدار اور ”خدائی“ کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے‘ زمینی حاکم نے اپنے حسنِ انتظام سے ہزاروں کوکھ بچوں کے بوجھ سے خالی کرا دیں لیکن حقیقی حاکم نے ہر تدبیر غارت کر دی‘ خطرے کی پرورش کا اہتمام اس کے اپنے آنگن میں کیا اور ایسا کیا کہ تمام اہتمام اور حفاظتی انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے، باباجی ایسے رُکے جیسے یادوں کی بجھتی راکھ سے کوئی چنگاری تلاش کررہے ہوں پھر گویا ہوئے خدا نے کائنات کی تعمیر ہی ایسے کی ہے، اس کے خمیر میں تغیر ہے اور تغیر ہی کائنات کی بقا کا راز ہے، کوئی جاہ طلبی میں ڈوب کر تغیرو تبدل سے منہ موڑے اور اس حقیقت سے نظریں چرائے تو بھی چرخِ ستم گر کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور کوئی نہ چرائے تو بھی۔ پہلو بدلتے ہوئے انہوں نے بات جاری رکھی، ان کی پیشانی کی شکنیں معمول سے زیادہ گہری ہو چکی تھیں، کہنے لگے خدا نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا صرف خلیفہ لیکن وہ بدقسمتی سے خدا بن بیٹھا اور یہی وہ نازک مقام ہے جہاں سے تباہی، تنزلی اور اختتام کا سفر شروع ہوتا ہے جب بھی کسی نے خدا بننے کی کوشش کی خدا کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی، وہیں شان الوہیت نے جوش مارا اور پلک جھپکنے میں شوکت و سطوت کو قصہ پارینہ بنا دیا، صفات خداوندی سے خود کو متصف سمجھنے والا خود ہی راندۂ درگاہ ہوا۔ شانِ کبریائی میں تو خیر کیا فرق پڑ سکتا ہے، مخلوقِ خدا کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور کبھی نہیں پڑتا کیونکہ ثبات تغیر کو ہے زمانے میں۔ اسی تغیر کو تبدیلی بھی کہہ سکتے ہیں، تبدیلی کبھی اچھی ہوتی ہے اور کبھی اتنی بھیانک کہ روح کانپ اٹھے۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہنے لگے کہ ایسی صورت میں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ انسانیت کا کچھ وقت تو ضائع ہوتا ہے لیکن سفر بالکل نہیں رکتا، خواب تو ٹوٹتے ہیں لیکن آنکھیں نہیں پھوٹتیں۔ اب انہوں نے لہجہ بدلا مجھے لگا موضوع بدلنے لگے ہیں لیکن چند ثانیوں کے توقف کے بعد گویا ہوئے تمہیں پتہ ہے پاکستان کی تشکیل میں کتنی رگوں سے خون کے فوارے پھوٹے، کتنی گردنیں کٹیں، کتنی عورتوں کی متاع عفت پہ ڈاکہ پڑا، یہ بھی جانتے ہو تشکیل سے تعمیر اور تعمیر سے استقامت تک کیا کیا نہ ہوا، کیسے کیسے مطلق العنان اور جابر حکمران مسلط رہے جنہیں اپنے مخالفین ایک آنکھ نہ بھاتے تھے،ہرحاکم نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ہزار حیلے کیے، حاکم ووٹ سے آیا یا کسی اور طرح سے‘ متذبذب ہی رہا، عجب ستم ہے کہ ووٹ سے آنے والوں کو آمریت سے لگاؤ رہا اور طاقت کے زور سے آنے والے جمہوریت کی زلفوں کے اسیر نکلے لیکن سب اس مسئلے پر یکساں متفکر رہے کہ اقتدار کو کیسے دوام بخشا جائے۔ جتنے مرضی نام بدلتے جاؤ کردار ایک ہی رہا، خواہشات یکساں ہی رہیں لیکن ہوا وہی جو لکھ دیا گیا تھا لیکن کسی کے آنے سے کوئی فرق پڑا نہ جانے سے کیونکہ نظامِ کائنات نے ہرصورت رواں دواں رہنا ہے‘ کائنات کا یہی سب سے بڑا سچ ہے لیکن یاد رکھنا جو تاریخ کے اوراق پہ لکھا گیا وہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔