چھ دنوں پر غور

April 07, 2022

پہاڑوں سے اترتاپانی بہت شور مچاتا ہے۔ دوسری طرف سمندر زیادہ تر وقت خاموش رہتا ہے۔ پھر جب یہ بپھرتا ہے تو سب کچھ تاخت و تاراج کر دیتا ہے۔ آپ ایک طویل سفر پر نکلیں تو بچّے ہر د س منٹ بعد پوچھیں گے : بابا، گھر کب آئے گا۔سمجھدار شخص کو فاصلے کی طوالت کا اندازہ ہوتاہے۔ وہ بے چین نہیں ہوتا۔ علم جتنا کم ہوتاہے، اتنا ہی ایک شخص بے چین ہوتا ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ جانتا ہے، اتنا ہی اس میں صبر و قرار موجزن رہتا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ خداجب کسی کام کے لیے ’’کُن ‘‘کہتاہے تو وہ کام ہو جاتاہے۔ اس سے اکثر لوگ یہ سمجھے کہ ایک لمحے میں سب کچھ ہوجاتا ہے ؛حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ خدا ہر کام کو مکمل منصوبہ بندی سے کرتاہے۔ پھل کو پکنے کا وقت دیتا ہے۔ سورہ الفرقان کی آیت 59میں خدا کہتاہے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وہ چھ دن میں تخلیق کیا گیا۔ ایک لمحے میں نہیں۔

ان چھ دنوں میں زمین و آسمان بنائے گئے اور کرہ ارض میں جانداروں کی ضرورت کی سب اشیا ء رکھی گئیں۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا نے آنِ واحد میں سب کچھ کیوں نہ بنا دیا۔ زمین بنی انسان کے لیے تھی۔ انسان کی آزمائش کے لیے اسے گوشت پوست کے ایک کمزور بدن میں حیوانی خواہشات اور الوہی ہدایت کی کشمکش میں رکھا جانا تھا۔ سترہ کروڑ سال تک ڈائنا سارز اس زمین پہ حکومت کرتے رہے۔آخر کیوں؟فاسلز یہ بتاتے ہیں کہ انسان کی کل تاریخ ہی تین لاکھ سال ہے۔قدیم ترین انسانی ڈھانچے تین لاکھ سا ل قدیم ہیں۔

زمین کی تاریخ بہت خوفناک ہے۔ساڑھے چار ارب سال پہلے جب سورج جل اٹھا تو اس کے بعد ہماری یہ زمین ا س کے مدار میں گھومتی ہوئی دوسرے سیاروں سے ٹکرا رہی تھی۔ درجہ ء حرارت اتنا زیادہ تھا کہ اس پر کسی زندگی کاوجود ممکن نہیں تھا۔ پھر یہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی۔ اس کے بعد اس پہ آکسیجن پیدا کرنے کے لیے سیانو بیکٹیریا تخلیق کیا گیا۔ جب کافی آکسیجن بن گئی تو اس نے دھاتوں کے ساتھ تعامل کر کے ان کے آکسائیڈ بنانا شروع کیے اور زمین پر Mineralsکی تعداد بڑھتی گئی۔زمین کی ابتدا کے مختلف مراحل میں سے ہر مرحلہ کروڑوں سالوں پہ محیط تھا۔

جب آکسیجن کافی ہو گئی تو سلفر پہ زندہ رہنے والی جاندار اشیا مر گئیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ مخلوق پیدا ہوئی‘ جس نے آکسیجن اور گلوکوز پہ زندہ رہنا تھا۔پہلے پودے بنے۔ زمین جنگلات سے ڈھک گئی۔ پھر زلزلوں میں یہ عظیم جنگلات زمین کے نیچے دفن ہو گئے‘ تا کہ کاربن سے کوئلہ‘ تیل‘ گیس اور ہیرے جواہرات بن سکیں۔اس طرح یہ فاسل فیولز بنے، جن سے آج تک ہم اپنی گاڑیاں اور کارخانے چلا رہے ہیں۔ جب تک انسان نے ہوش سنبھالا ، اس سے پہلے ہی زمین ان سب مراحل سے گزر چکی تھی۔یہی صورتِ حال زندگی کی ہے۔ ایک دفعہ پیدا ہونے کے بعد زندگی مکمل طور پر کبھی ختم نہیں ہوئی۔ دنیا میں موجود 7.8ارب انسانوں کا شجرہ اگر آپ نکالیں تو وہ ایک جدّ امجد سے جا ملے گا۔گھوڑے اور گدھے کا جدِ امجد ایک تھا۔ شیر اور بلی کا جدِ امجد ایک۔

ہر خلیہ خود مرتے ہوئے اپنے جیسے دو پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی امر ہے۔ جب اس زمین پر پہلا جاندار خلیہ پیدا ہوا تو اسی وقت خدانے اسے امر کر دیا تھا۔ اس کے بعد کرہء ارض کے ہنگامہ خیز حالات میں یہ زندگی ارتقا کرتی رہی۔ یہ یک خلوی جانداروں سے شروع ہوئی پھر یہ کثیر خلوی جانداروں تک آئی۔ پھر یہ پانی سے باہر نکلی۔ یہ ریپٹائلز‘ میملز، پرائمیٹس اور گریٹ ایپس تک جا پہنچی؛ حتیٰ کہ انسان پیدا ہو گیا۔ ارتقا کے مخالفین کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ارتقا مذہب مخالف نظریہ ہے‘ اسی لیے وہ ساری زندگی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ خدا نے کّن کہا اورساری مخلوقات موجودہ حالت میں پیدا ہو گئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے آپ ارتقا کو پڑھیں۔ آپ کو پتا تو ہو کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ ہوتی کیا ہے؟ فاسلز کی سائنس کیا ہے؟ جینز او رڈی این اے کو کیسے پڑھا جا تا ہے؟ اس کے بعد ہی انسان اس قابل ہو سکتاہے کہ ارتقا کا انکار کر سکے۔

بچہ آج بھی ایک دم پیدا نہیں ہوتا۔ ماں اور باپ کا ایک ایک خلیہ آپس میں ملتاہے۔پھر نیا بننے والا خلیہ ایک سے دو‘ دو سے چار اور چار سے آٹھ کی شکل میں بڑھتا چلا جاتاہے۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پہلے بنتی ہے‘ پھر اس کے گرد ساری ہڈیاں‘ گوشت اور خون پیدا ہوتاہے۔ریڑھ کی ہڈی سے نروز نکل کر جسم کے ایک ایک حصے تک پھیل جاتے ہیں۔ اسی طرح خون کی نالیاں بھی۔ آپ دنیا میں جتنی بھی چیزیں دیکھیں گے‘ وہ ایک تدریجی عمل میں تکمیل کو پہنچتی ہیں۔

جب ہم مذہب کا تمسخر اڑانے والے کسی شخص کو دیکھتے ہیں توبپھر جاتے ہیں۔ خد ا کو مگر کوئی جلدی نہیں۔ کیا وہ انسان کا حساب کتاب کرنے کے لیے پانچ سو، ہزار سال مزید انتظار نہیں کر سکتا؟ سترہ کروڑ سال تو وہ ڈائناسار پالتا رہا۔جو جتنے بڑے درجے پہ فائز ہوتا ہے، جس کے پاس جتنا زیادہ علم ہوتاہے‘ اتنا ہی اس کے اند رصبر ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں آپ جتنے بھی مظاہر دیکھیں گے‘ وہ ایک تدریجی عمل سے گزر کر برگ و بار لاتے ہیں۔اس تدریجی عمل کو جتنا جتنا انسان جانتا چلا گیا‘ اسے وہ مختلف سائنسز میں نوٹ کرتا رہا۔ خداایک دن میں پھل نہیں اگاتا۔ شاذ ہی وہ کوئی معجزہ برپا کرتاہے۔

ان چھ دنوں پہ آدمی کو غور کرنا چاہیے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)