افراطِ زر اور صدر ایردوان

May 18, 2022

اس وقت ترکی میں افراطِ زر کی شرح یورپ میں پہلے نمبر پر جبکہ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن اس اضافے نے کسی بھی ملک کے عوام کو زیادہ متاثر نہیں کیا لیکن ترکی کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں پر افراطِ زر کی شرح اگر ایک دفعہ کنٹرول سے باہر ہوجائے تو پھر اس پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا اوراب افراطِ زر کی یہ شرح حکومتی اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق 70 فیصد کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے جبکہ حقیقت میں یہ شرح تھری ڈیجٹ کی حد بھی کافی عرصے سے پار کرچکی ہےاور روز بروز اس میں اضافہ جاری ہے۔ اگرچہ دنیا میں افراطِ زر کی شرح پر قابو پانے کے لیے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کرتے ہوئے اس پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور بڑی حد تک وہ اپنے یہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں لیکن ترکی میں صدر ایردوان اس عالمی نقطہ نظر سے بالکل ہٹ کر نئی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں وہ مرکزی بینک میں شرح سود میں اضا فہ کرنے کی بجائے اس کی شرح میں مسلسل کمی کرنے پر اصرار کرتے چلے آرہے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے قلیل عرصے میں مرکزی بینک کے تین چار صدور اوپر تلے نہ صرف تبدیل کیے بلکہ اپنے داماد وزیر خزانہ سمیت متعدد وزرائے خزانہ کو بھی تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی۔ صدر ایردوان ہمیشہ ہی مرکزی بینک میں شرح سود میں کمی سے ملک میں افراطِ زر کی شرح میں کمی لانے پر یقین رکھتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کرنے سے فوری طور پر غیر ملکی سرمایہ کار اپناپیسہ نکال کر شرح سود زیادہ دینے والے ممالک میں منتقل کردیتے ہیں۔ صدر ایردوان کے اس پالیسی پر ڈٹے رہنے کے نتیجے میں ترک کرنسی’’ لیرا‘‘ کی قدرو قیمت میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے اور عوام کو صدر ایردوان کی اس پالیسی کے نتیجہ خیز ہونے کا ذرہ بھر بھی یقین نہیں ہےکیونکہ یہ ایسا معاشی ماڈل ہے جو تمام مسلمہ معاشی نظریات کی نفی کرتا ہے اور اسی وجہ سے ترکی گزشتہ سال سے شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور ترک لیرا مسلسل اپنی ساکھ کھوتا جا رہا ہے حالانکہ صدر ایردوان نے ترک کرنسی کی قدرو قیمت میں کمی کو رکوانے کے لیے روایتی طریقے سے ہٹ کر نیا طریقہ استعمال کیا اور عوام کو بینکوں میں ترک لیرا رکھنے کی صورت میں غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں اس کی قدرو قیمت میں کمی نہ ہونے کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ اس پر منافع دینے کے علاوہ مرکزی بینک کے سونے کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے عوام سے اپنے زیورات مرکزی بینک میں خاص مدت کیلئے ڈپازٹ کروانے کی صورت میں منافع دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود ترک لیرے کی قدرو قیمت میں کمی جاری ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ترک معیشت کا بہت حد تک انحصار خام مال کی درآمدات پر ہے جن میں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر کپڑا بنانے کی صنعت شامل ہے اور لیرا کی قدر میں کمی کا اثر براہ راست ان اشیاء کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے اور اسی وجہ سے ترکی میں مہنگائی عروج پر ہے بلکہ سپر مارکیٹ والوں کو مسلسل قیمتوں کی پرچیاں تبدیل کرنی پڑرہی ہیں۔ ملک کی مہنگائی پر اگرچہ نوجوان نسل میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار میڈیا، سوشل میڈیا پر کیا جا رہا ہے لیکن عوام ابھی تک سڑکوں پر نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ شاید اس کی وجہ حکومت کی جانب سے سخت سے سخت فوری سزا دینے پر عمل درآمد ہے۔ ترکی میں سنہ 2002 سے صدر ایردوان کی ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ برسر اقتدار ہے اور نوجوان نسل نے اس پارٹی کو اقتدار میں رکھنے میں بڑا نمایا ں کردار ادا کیا ہے۔ ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک سال بعد یعنی 2023 میں کروانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن ملک میں مہنگائی اورافراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح نے صدر ایردوان اور ان کی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو پھر صدر ایردوان کیلئے 2023کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

صدر ایردوان بلا شبہ مہنگائی پر قابو پانے کی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کئی بار اس بات کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ سنہ 2022 ترکی کی تاریخ کا سنہری دور ہوگا اور سن 2023میں وہ ترقی کے نئے دروازے کھولتے ہوئے داخل ہونا چاہتے ہیں جبکہ متعدد مبصرین اور تمام مخالفین کا خیال ہے کہ حکمران جماعت اب عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور سنہ2023 ملک میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔ترکی کی حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں ترکی میں بااختیار صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی طرز کے نظام کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق اب صدر ایردوان کے دن گنے جاچکے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے مرتب کررہے ہیں اور ناراض ممالک کو ایک بار پھر گلے لگا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ترکی اس وقت فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے خلاف ویٹو استعمال کرتے ہوئے امریکہ پر اپنے پریشر کو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ ترکوں کی عظمت اور دھاک کا کارڈ کھیلتے ہوئے عوام کی حمایت حاصل کی جاسکے۔کیا وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی کامیابی حاصل کرسکیں گے؟ اگر کوئی کرشمہ نہ ہوا تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔