بحران سا بحران، فوری انتخابی ماحول مطلوب

May 21, 2022

200 روپے پر ڈالر کی پرواز اور انتہا کے پیچیدہ اور سیاسی و آئینی بحران نے ملکی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ الگ ہے کہ قومی سیاسی رہنما، ریاستی ادارے اور خود عوام انہیں سنجیدگی سے سنیں، سن کر اپنی ذمہ داری خواہ یہ آئینی و منصبی ہے یا بطور شہری جائزہ لیں کہ گھمبیر بحران کو پہلے تھامنے پھر کم اور ختم کرنے میں ہم از خود یا کہیں نہ کہیں مل کر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسٹیٹس کو، سیاست، اقتدار و دولت پر دسترس اور معاش پر بڑھتے اجارے کے ماحول میں اچھے برےکی تمیز رکھنے والے یا تو نظامِ بد سے مفاہمت کے اسیر ہو گئے، زیادہ لاتعلق ہوگئے یا کچھ دل جلے دوسروں کے دل جلانے کے لیے تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔ جتنا بھی تعلیم اور شعور بیدار ہوا، سیاست میں ہلچل اور میڈیا نے بہت کچھ دکھایا سنایا، پڑھایا، عدلیہ کا حجم بڑھ کر بھی کم کردار و کارکردگی ہے۔ عدلیہ کے اعتبار اور مطلوب کردار کی ادائیگی میں ایک جمپ وکلا تحریک (2007) نے ضرور لگائی۔ اس کے فالو اپ بشکل جیوڈیشل ایکٹوازم سے تو یہ ہی لگا تھا۔ اس نے بیڈ گورننس کی انتہا پر انسداد کے کچھ بند تو باندھے لیکن چوٹی پر پھر انفرادی مسائل کی نشاندہی سے نظام عدل و انصاف میں ارتقا کا عمل پائیدار نہ رہ سکا۔ پانامہ کیس نے عدلیہ کو وقار بھی دیا اور اس کے فیصلوں پر دہائی بھی مچی۔ اب پھر عوام الناس اور سیاسی جماعتوں میں عدلیہ فٹ بال بنی ہوئی ہے تاہم ہفتہ دس روز میں ہی اس بحران کے حوالے سے تیز سماعت اور حل میں مدد کے حامل فیصلوں سے گنجلک کچھ ڈھیلے پڑے ہیں، کچھ راہیں نکلنے کی امید جاگی تو ہے۔ جاری بحران کے اس پیش منظر میں زرداری ساختہ وزیراعظم شہباز بھی بےحال ہوگئے۔ بذریعہ پریس کانفرنس شادمانی کے اظہار کے بعد اب زرداری صاحب نئے یار اور میدانِ سیاست میں اتارے نوخیز وارث کے ’’اقتدار‘‘ میں طوالت کے لیے کوشاں ہیں۔ گھبرائے گھبرائے سے وزیراعظم نے پاکستان کو پہلے تو لاہور کی طرح کاسمیٹک گورننس سے چلانے کی کوشش کی لیکن بات بنی نہیں۔ لاہور گھر ہے، پاکستان عظیم تر اور پیچیدہ معاشی ماحول گھمبیر اور بےقابو۔ اوپر سے اصل حکمران جماعت ن لیگ کی فیصلہ سازی کا مرکز و محور لندن ٹھہرا۔ پارٹی سے عوام کو مزید پیسنے کی قیمت پر خالی خزانہ بھرنے اور حکومت سے جان چھڑانے یا گھسیٹنے پر دو آرائی میں بدستور تقسیم ہے۔ آئندہ الیکشن میں پنجاب بریڈ بنتا نظر آ رہا ہے اور زرداری نے لندن اور لاہور سے بھی منو ا لیا ہے کہ یہ یہ سلائس میرا ہے، اب ن لیگ اس پر سخت پریشان ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا ٹکٹ ہاٹ کیک بنے ہی بنے۔ الگ ہے کہ خان صاحب کس کس کو کس قیمت پر دیں گے۔ بحران کے چار پانچ فیچر بیک وقت قومی تقسیم اور اس کڑے وقت میں بھی قومی زندگی کی رمق اور حوصلے کا باعث ہیں۔ مولانا صاحب نے عمران خان کو اپنے کوچے میں جا کر انہیں بےمنصب کرنے کا بدلہ درجن بھر جماعتی اتحاد پی ڈی ایم بنا کر لیا۔ وہ پی ڈی ایم جس نے جائز و ناجائز سیاسی و غیر جمہوری حربے سے، اپنے تئیں تو تبدیلی میں ناکام ’’تبدیلی حکومت‘‘ کو بےآبرو کرکے نکالا لیکن اس سے بدنام ہونے والی ’’آئینی تگ ودو‘‘ کا فوری نتیجہ پی ڈی ایم کی برائلر گورنمنٹ بننے سے کہیں بڑھ کر آن واحد میں رقیبِ اول و آخر عمران خان کا ملک گیر تگڑا ووٹ بینک بننے کی صورت میں نکالا۔ خان صاحب نے اسی عوامی لہر پر سوار اقتدار سے اترتے ہی بلاکی انتخابی مہم شروع کی جو کتنے ہی کامیاب ترین جلسوں کے بعد انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ ایک طرف حکومت پر خالی خزانہ اور آئی ایم ایف کی ظالمانہ ڈیل اور مہنگائی پر سخت نالاں و بےبس عوام کا پریشر پھر مشکل وقت کی حکومت سنبھالنے اور کچھ نہ کچھ جلد سے جلد ڈلیور کرنے کا دبائو، دوسری جانب ن لیگ کے ووٹ بینک میں گھس کر کھلبلی مچانے کا چیلنج لگتا ہے۔ خانِ اعظم کی ساری حکومتی خطائیں معاف کرکے، حکومت جاتے ہی عوام کے ایک بڑے فیصد نے حیران کن حد تک انہیں اپنا محبوب لیڈر بنا لیا ہے۔ بلاشبہ مریم صاحبہ نے ہمتِ نسواں سے جوابی عوامی رابطہ مہم اپنے گھر کو عمران کے ’’شر‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے شروع کی اور جاری رکھی ہوئی ہے۔ الگ ہے کہ مریم کے استاد انکل یا انکلز کی گائیڈنس نااہلی اور اناڑی پن کی عکاس ہے جبکہ اس حوالے سے مریم بی بی کے اپنے ڈیزاسٹر پہلے ہی کم نہ تھے۔ دوسری جانب خان کا ہر بیانیہ ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا اور زبان زد عام ہو رہا ہے۔ دو ملائوں میں مرغی حرام کا محاورہ تو سب نے سنا ہے، اب دو ن لیگی وزرا خزانہ کراچی اور لندن والے کے ہوتے سکڑتے خزانے کو ڈیڑھ دو ارب ڈالر کا مزید ٹیکا لگ گیا۔ معاشی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے خان سے کوچہ اقتدار تو خالی کرا لیا گیا لیکن مرکز و پنجاب میں موجود حکومت سے کہیں بہتر سنبھلی چلتی حکومت کی جگہ معذور و نیم معزول حکومت کے پورے طور پر براجمان نہ ہونے سے بھی بنا بنایا، چلتا چلاتا ملکی معاشی ماحول بری طرح متاثر اور سرمایہ کاروں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔ پی ڈی ایم میں حکومت کا وسیع تجربہ رکھنے والی جماعتوں خصوصاً ن لیگ نے تحریک عدم اعتماد کے کامیابی کے امکانات بڑھنے کے باوجود عوام کو فوری ریلیف یا کم از کم مزید نرخوں میں اضافے کو روکنے کا کوئی بھی تو پیکیج تیار نہیں کیا حالانکہ عوام کو اس کا یقین تھا لیکن اپوزیشن حکومت سے بھی اقتدار سنبھالنے پر اس جواز کو مکمل بھول گئی۔ اس نے صرف عدم اعتماد کی تحریک لا کر بڑا سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام چند روز میں ہی پیدا کردیا جو اب انتہا پر پہنچ گیا ہے۔

شکر ہے کہ سیاسی ابلاغ میں یکدم جو پُرخطر بیانیوں، دھمکیوں اور سخت غیر ذمے دارانہ مندرجات کی جگہ بنی تھی اس میں کمی آئی ہے اور بہت کچھ متنازع اقدامات اور پریکٹس کے معاملات عدالتوں میں جانے سے کچھ ٹھہرائو آگیا ہے۔ عدالتوں کی سنجیدگی اور ذمہ داری کوبھی واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے لیکن معاشی بحران کی گھمبیر صورتحال اور انتخابات کا انعقاد کب اور کیسے؟ یہ جلد اتفاق کی صورت نہیں بن رہی، حالانکہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے لندنی ذریعے دونوں جلد الیکشن پر غیراعلانیہ متفق ہیں جس کا کھلا اظہار مریم صاحبہ اپنے جلسوں میں کر رہی ہیں۔ اصل اور بہت تشویشناک مسئلہ معاشی ماحول میں ہراسگی کا پیدا ہونا ہے، الیکشن کے حوالے سے جتنا اتفاق ہے اسے بڑھا کر اور باقاعدہ رسمی اور علانیہ شکل میں لا کر سیاسی ماحول میں تنائو اور کھینچا تانی کو کم اور انتخابی مہم کو شروع اور جلد بڑھا کر فضا کو مطلوب حد تک سیاسی اور قابلِ قبول تو بنایا جا سکتا ہے۔ متحارب فریقین میں بعض بیک ڈور چینلز کے ذریعے سے رابطوں کی خبریں تو آرہی ہیں، انہیں ہی سرگرمی اور مسائل کے حل پر زیادہ سے زیادہ اتفاق کرانے اور جلسہ عام کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ میڈیا اس حوالے سے بہت موثر کردار ادا کر سکتا ہے لیکن سوشل نہیں روایتی مین اسٹریم میڈیا جس کا زور بحران کے ہر زاویے کو کور کرنے پر تو ہے حالانکہ وہ حل نکالنے میں بھی مدد کی بڑی سکت رکھتا ہے جس کے لیے قومی جمہوری سوچ اور ایجنڈا سیٹنگ مطلوب ہے۔