سراج الدولہ کو شکست کیوں ہوئی؟

May 23, 2022

ہم بیشتر تاریخی کرداروں سے متعلق مبالغوں اور مغالطوں کا شکار ہیں۔بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ اور اس کے جرنیل میر جعفر کے حوالے سے بھی حقائق کو بہت بری طرح سے مسخ کیا گیا۔ عمومی تصور تویہ ہے کہ نواب سراج الدولہ نے کلکتہ کے عقوبت خانے میں 146انگریزوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا، اس لئے انگریزوں نے اس کے سپہ سالار میر جعفر سے مل کر سازش کی اور جنگ پلاسی میں شکست دے کر حکومت بدل دی۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔جگت سیٹھ جو بنگال کا بنکاری نظام چلاتے تھے اور معیشت پر ان کی اجارہ داری تھی،وہ سراج الدولہ کے رویے سے نالاں تھے ۔دوسری طرف سراج الدولہ کے جرنیل میر جعفر بھی اہانت آمیز سلوک کے باعث تنگ تھے۔ان دونو ں نے مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کو پیشکش کی کہ آپ اگرہمارے ساتھ مل کر سراج الدولہ کا تختہ اُلٹنے میں مدد دیں تو ہم 2.5کروڑ روپے یعنی موجودہ شرح تبادلہ کے حساب سے325ملین پائونڈ مشاہرہ ادا کرنے کو تیارہیں ۔معروف مؤرخ ولیم ڈیلریمپل اپنی کتاب ’دی انارکی‘ کے صفحہ نمبر121-122 پرلکھتے ہیں کہ اس پیشکش پر غور کرنے کے لئے بنائی گئی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کمیٹی نے یکم مئی کو حکومت تبدیل کرنے کی اس سازش کا حصہ بننے کی منظوری دے دی۔اس دوران میر جعفراور جگت سیٹھ نے پیشکش 2کروڑ50لاکھ سے بڑھا کر 2کروڑ80لاکھ روپے کردی جو بنگال کے ایک سال کے ریونیو کے برابر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو تنخواہیں دینے کے لئے ماہانہ ایک لاکھ دس ہزار روپے کی اضافی ادائیگی،کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو لینڈ ہولڈنگ یعنی زمینداری اور ڈیوٹی فری ٹریڈ کی اجازت اور کلکتہ میں نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے میر جعفر کی طرف سے مزید 15لاکھ برطانوی پائونڈ ادا کرنے کی پیشکش بھی کی گئی۔4جون کو یہ ڈیل فائنل ہوگئی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں کو خواتین کیلئے استعمال ہونیوالی پالکی میں بٹھا کر میر جعفر کے گھر پہنچایا گیا جہاں معاہدے پر دستخط ہوئے۔میر جعفر نے قرآن پرہاتھ رکھ کر اس معاہدے کی پاسداری کرنے کا حلف دیا۔11جون کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی کمیٹی کو یہ مسودہ موصول ہوا تو جنگ کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ رابرٹ کلائیو نے بنگال کے دارالحکومت مرشد آبادکی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے 15جون 1757ء کو جگت سیٹھ کو پیغام بھیجا تاکہ پتہ چلےکہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں یا نہیں ۔اگلے روز کلائیو نے میر جعفر کو خط لکھا مگر ان دونوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو وہ پریشان ہوگیا۔ 18جون کوکیٹوا کے قلعے پر قبضہ کرنے کے بعد بھی میر جعفر کی طرف سے کوئی خبر نہ ملی ،حالانکہ اسے اپنی فوج لیکر اسی مقام پر انگریزوں سے آملنا تھا۔ کلائیو نے کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلیکٹ کمیٹی کو خط لکھ کر تشویشانک صوررتحال اور اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ رات گئے میر جعفر کا ایک مبہم ساخط ملا مگر اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔اُدھر ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ کی کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ان کے لئے بچھایا گیا جال ہوسکتا ہے لہٰذا پیشقدمی نہ کی جائے۔مگر پھر میر جعفر کا پیغام آگیا کہ آپ کے فوجی دستے جونہی قریب پہنچیں گے،میں آپ کے ساتھ آملوں گا۔انگریزوں کے فوجی دستے دریائے ہگلی پار کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے جہاں سراج الدولہ کا لشکر خیمہ زن تھا۔صبح ہوتے ہی کلائیو نے اونچی جگہ کھڑے ہو کر سراج الدولہ کا لشکر دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ صبح 8بجے گولہ باری شروع ہوئی تو رابرٹ کلائیو نے30سپاہی گنوانے کے بعد پسپائی اختیار کرکے دریا کنارے آم کے درختوں کی اوٹ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔کلائیو نے کہا،ہم دن بھر جس قدر بہادری سے لڑ سکتے ہیں ،لڑیں گے اور رات ہوتے ہی اپنی بندوقیں اُٹھا کر کلکتہ کی طرف بھاگ نکلیں گے۔

عددی اعتبار سے انگریز فوج اور سراج الدولہ کے لشکر کا کوئی موازنہ نہیں تھا، ایک انگریز فوجی کے مقابلے میں 20بنگالی سپاہی موجود تھے۔میر جعفر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرے گا۔وعدے کے مطابق اسے اب تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے آملنا چاہئے تھا ۔رات سے پہلے میدانِ جنگ سے فرار ہونا ممکن نہیں تھا۔مگر پھر ایک ایسی پیشرفت ہوئی جو انگریزوں کیلئے غیبی امدادثابت ہوئی۔دوپہر کے وقت گہرے بادل چھا گئے اور موسلادھار بارش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بارش تھمی تو سراج الدولہ کے لشکر میں موجود توپیں اورباردو گیلا ہونے کے باعث خاموش ہوچکی تھیں۔سراج الدولہ کے کیولری کمانڈر میر مدن نے سوچا جس طرح ان کی توپیں چلائے جانے کے قابل نہیں رہیں،اسی طرح انگریزوں کی توپیں بھی ناکارہ ہوچکی ہوں گی۔مگر کلائیو کی فوج نے نہایت مہارت سے اپنی توپوں کو گیلا ہونے سے بچا لیاتھا۔چنانچہ سراج الدولہ کے 5ہزار گھڑسواروں نے جیسے ہی پیشقدمی شروع کی، انگریزوں کی توپیں آگ اُگلنے لگیں اور نواب آف بنگال کی فوج کے پائوں اُکھڑ گئے۔لڑائی کے دوران سراج الدولہ کے کیولری کمانڈر میر مدن بھی توپ کا گولہ لگنے سے مارے گئے تو سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی ،پسپائی کا سفر شروع ہو چکا تھا ۔ لشکر میں بھگدڑ مچ گئی ۔ سراج الدولہ کے تجربہ کار جرنیل میرجعفر نے جنگ کا پانسہ پلٹتے دیکھا تو انگریزوں کے ساتھ کئے وعدے کے مطابق اپنے لشکر کو الگ کرلیا اور دریائے ہگلی کے کنارے کی طرف نکل گیا۔یوں کچھ ہی دیر میں پلاسی کے میدان میں لڑی جارہی یہ لڑائی اختتام کو پہنچی ،فوج تتر بتر ہوگئی تو سراج الدولہ اونٹ پر بیٹھ کر فرار ہوگیا۔میر جعفر کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کامیاب ہوچکے ہیں۔رابرٹ کلائیو نے تھپکی دیتے ہوئے کہا ،یہ میری فتح نہیں بلکہ تمہاری کامیابی ہے۔گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ جب انگریز فوج کے کیمپ میں میر جعفر کو گارڈ آف آنر دیا جانے لگاتووہ خوف زدہ ہوکر بھاگنے لگا،موصوف کو بتایا گیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ کو پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ آئندہ کالم میں سراج الدولہ کی شخصیت کے مختلف گوشوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔