ترکوں کی محبت کا احترام کریں

May 25, 2022

چند عناصرنے، جو پاکستان اور ترکی کے تاریخی، دیرینہ اور گرمجوشی پر مبنی تعلقات کو اپنے لیے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہیں، ان تعلقات کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف حربے، خاص طور پر سوشل میڈیا اور اس کے لیے ترکی میں آباد چند ایک پاکستانیوں اور چند ایک ترکوں (نام نہاد سیکولر ترکوں ) کو استعمال کرتے ہوئے ان تعلقات پر ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی جس کا بھانڈہ ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئیلو نے بیچ چوراہے یہ کہتے ہوئے پھوڑ دیا کہ’’ سوشل میڈیا کے ان اکائونٹس میں سے 80 فیصد جعلی، فیک اور بوگس اکائونٹس ہیں‘‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان نیشنل شپ پروجیکٹ کے دائرہ کار میں تیسرے بحری جہاز بدر کے کراچی شپ یارڈ سمندر میں اتارنے کی تقریب کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نےاپنی وڈیو میں ’’پاکستان کی خوشحالی، استحکام اور سلامتی ترکی کی خوشحالی، استحکام اور سیکورٹی ہے‘‘کا پیغام دیتے ہوئے ان عناصر کے منہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا ہے جس کو وہ عمر بھر نہیں بھول پائیں گےاور ان کو دوبارہ اس قسم کی حرکت کرنے کی جسارت نہ ہوگی۔ ترکی میں صرف صدر ایردوان کی پارٹی ہی پاکستان سے گہری محبت اور انسیت کا اظہار نہیں کرتی بلکہ تمام ترک عوام اور تمام ترک سیاسی جماعتیں پاکستان سے اپنی محبت کو ایسا قرضِ حسنہ سمجھتی ہیں جس کی ادائیگی ممکن ہی نہیں ہےالبتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدر ایردوان کی پاکستان سے محبت ان کے خون میں علامہ اقبال کے اشعار کے ذریعے رچی بسی ہے۔پاکستان کی محبت کے سامنے وہ دنیا کی بھی پروا نہیں کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔

اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر کوئی حرف نہ آنے دیں اور ایسے تمام رویوں، سوچ اور خیالات سے دور رہیں جن سے ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہوں کیونکہ یہ دنیا میں واحد ملک ہے جہاں پاکستان اور پاکستانیوں کو بڑی عزت و وقار سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں ترکی میں اپنے قیام کے دوران بڑا مہذب ہونے اور ترکی کے قوانین پر سختی سے کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ ترکی جو ایک سیکولر ملک ہے، ترکی میں سیکولرازم کو ریاست کے مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت ڈرامہ سیریز ’’ارطغرل غازی‘‘ سے متاثر ہو کر اسے اسلامی سلطنت کا روپ دینے یا اس سلسلے میں من گھڑت وڈیوز تخلیق کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ آپ اپنے ملک میں سیکولرازم کی جو تشریح کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن ترکی میں سیکولرازم کے نام پر اتاترک کو تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی گریز کریں۔ جس طریقےسے ہم پاکستان کے بانی قائداعظم پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں ہمیں اسی طرح اتاترک کے سیکولرازم نظام کو چیلنج کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

پاکستان سے بڑی تعداد میں گزشتہ کچھ عرصے سے یورپ جانے کے لیے غیر قانونی تارکینِ وطن ترکی تشریف لا رہے تھے کہ یورپ جانے کے تقریباً تمام ہی راستے مسدود ہوچکے ہیں اور یہ تارکینِ وطن واپس پاکستان جانے کی بجائے ترکی ہی میں قیام پذیر ہو جاتے ہیں لیکن اب جبکہ ترکی میں افراطِ زر کی شرح ناقابلِ یقین حد تک بلند ہے اور ترک لیرے کی قدرو قیمت میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے چنانچہ ترکی میں ان کے قیام کے دوران کمائی کرنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ بمشکل یہ اپنا پیٹ پال سکتے ہیں۔ اس لیے ان حالات میں ترکی آنا اور روزگار حاصل کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو مصیبت اور مشکلات میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔

ترکی میں کئی ایک پاکستانیوں نے رئیل اسٹیٹ کا کام شروع کر رکھا ہے اور ان کے لیے بہترین شکار اپنے ہم وطن پاکستانی ہی ہوتے ہیں اس لیے ان رئیل اسٹیٹ والوں سے دور رہنے ہی میں ہم سب کی عافیت ہے۔ علاوہ ازیں یہ رئیل اسٹیٹ والے اپنے ہم وطنوں کو ویز ہ ختم ہونے کی صورت میں ٹی آر سی (عارضی رہائشی پرمٹ)ایک سال کے قیام کے لیے بھی بنوا کر دیتے ہیں اور اس کے لیے ایک ہی گھر کو کئی کئی بار کرایے دار پر دکھا نے کے علاوہ جاب فراہم کرنے کا بھی جھانسہ دیتے ہیں جس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں رئیل اسٹیٹ والے پاکستانیوں کو سستے نرخوں میں گھر خرید کر ٹی آر سی دلوانے کا بھی دھوکہ دیتے ہیں جبکہ حکومت نے بڑے شہروں میں 75 ہزار ڈالر کی اور چھوٹے شہروں میں 50 ہزار ڈالر مالیت کا جائیداد خریدنے ہی کی صورت میں ٹی آر سی لینے کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس لیے ارزاں نرخوں کے مکانات خریدنے کےلالچ میں ان رئیل اسٹیٹ والوں کا شکار بننے سے گریز کریں۔ علاوہ ازیں حکومت کے نئے قانون کے مطابق ٹی آر سی حاصل کرنے والے افراد اب ترکی سے 120 روز باہر رہنے کی صورت میں اپنے اس حق سے محروم ہو جائیں گے۔ اب آخر میں ایک بار پھر اپنے پاکستانی بھائیوں سے ترکی میں طویل عرصے سے قیام پذیر ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپیل کروں گا۔ ترکی دنیا میں پاکستان کا سب سے قریبی دوست اور برادر ملک ہے اور اس کے عوام پاکستان کے عوام سے نہ صرف دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کو دنیا کے تمام دیگر ممالک پر ترجیح دیتے ہیں۔ آپ ایک سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا احساس کرتے ہوئے ان تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوشش کریں تاکہ ہماری آئندہ نسلوں تک اس محبت اور چاہت کے پھول کھلتے رہیں۔