ٹیکس چوری

June 26, 2022

یہ حقیقت ہے کہ ٹیکس کی پوری وصولی کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی تو کجا اپنے امور کو بھی بطریق احسن نہیں چلا سکتا ۔دنیا میں ٹیکس دراصل ان محصولات کا نام ہے جو عوام وخواص سے وصول کیا جاتا ہے اور اس کے عوض انہیں انفراسٹرکچر ،بجلی ، سڑکیں ، ہوائی اڈے ، بندرگاہیں ، صحت عامہ کی خدمات ، تعلیم ، دفاع اور سماجی تحفظ کا نظام مہیا کیا جاتا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ویسا ٹیکس کلچر رائج نہ ہو سکا جیسا کہ ترقی یافتہ دنیا میں ہے جہاں لوگ فریضہ سمجھ کر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔اسکے برعکس ہمارے ہاں ٹیکس چوری نے جڑ پکڑ لی جس میں سب چھوٹے بڑے شامل ہیں ۔عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ مچھلی سر کی جانب سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے چنانچہ بڑے لوگوں کی ٹیکس چوری کے اثرات نیچے تک آچکے ہیں ۔ثبوت قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں حلف دینا ہوگا کہ ٹیکس چوروں کی سفارش سے نہیں کریں گے،پاکستان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ اگر ان کا درست استعمال ہو اور ٹیکس چوری نہ ہو تو آئی ایم ایف یا کسی ملک کے پاس بھیک مانگنےجانے کی نوبت نہ آئے ،وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ10 سال تک شعبہ زراعت کو سپورٹ دی جائے تو ہمیں آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں سے نجات مل جائے ۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر، ٹیکس چوری روک کر اور کرپشن کے آگے بند باندھ کر معاشی استحکام حاصل کر سکتے ہیں ،ضرورت بس توجہ دینے کی ہے،خواجہ آصف کی بات میں وزن ہے ،اس پر عمل ہونا چاہیےتاکہ ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے در پر جبیں سائی نہ کرنی پڑے اور ہم بھی دنیا میں سراٹھا کر جینے کے قابل ہو سکیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998