ہمارے خطے کی نئی صورتحال!

June 30, 2022

سب سے پہلے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ کوسعودی عرب کا سب سے بڑا قومی اعزاز ا ملنےپرمبارکبادپیش کرنا چاہتا ہوں، میڈیا اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہ سلمان کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے جنرل باجوہ کو دورہ سعودی عرب کے دوران کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس سے نوازا ہے،جدہ میں جنرل باجوہ کے اعزاز میں منعقدہ خصوصی تقریب میں سعودی نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سمیت سعودی عرب کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض الرویلی اور دونوں اطراف کے اعلیٰ دفاعی اور سفارتی حکام شریک ہوئے، سعودی حکومت کی جانب سے اعلیٰ ترین میڈل کا مقصددوطرفہ تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں جنرل باجوہ کی قائدانہ کوششوں کو سراہنا ہے،اس حوالے سے سعودی عرب کے نائب وزیردفاع شہزادہ خالد بن سلمان کی اردو زبان میں ٹوئٹ بھی وائرل ہوئی ہے کہ ’مجھے پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرکے خوشی ہوئی، ملاقات کے دوران دونوں برادر ممالک کے درمیان دفاعی اور عسکری شعبے میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا‘۔میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کا شمارپاکستان کے سب سے قریبی اورقابل اعتماددوستوں میں ہوتاہے جس نے آج تک ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، قیام پاکستان کے وقت عالمی دنیا دو بلاکوں میں بٹ چکی تھی، مڈل ایسٹ ممالک کی اکثریت سویت یونین کی ہمنوا تھی،اس وقت پاکستان اور سعودی عرب امریکی کیمپ میں شامل تھے،پاکستانیوں کو سعودی عرب سے خصوصی عقیدت ہے، دونوں ممالک عالمی سطح پرمختلف ایشوز پر یکساں موقف رکھتے ہیں، سعودی سرزمین کو عسکری خطرات سے نجات دلانے کیلئے افواج پاکستان نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، گزشتہ پچاس سالوں سے پاکستانی عسکری دستے مقدس سرزمین کے دفاع کیلئے سعودی عرب میں موجود ہیں،سعودی حکومت اپنے فوجیوں اور ہوابازوں کی پیشہ ورانہ تربیت کیلئے پاکستان کی جانب دیکھتی ہے،اسی طرح پاکستان کا ہمسایہ ملک ایران ایک طویل عرصے تک پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ آج جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں ان کےمطابق سعودی عرب اور ایران اپنے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں سنجیدہ ہوچکے ہیں، دونوں جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جن سے دوطرفہ تعلقات کو فروغ مل سکے۔گزشتہ چند سالوں میں ترکی میں سعودی صحافی کے مبینہ قتل کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات منجمد ہوچکے تھے لیکن آج ترک صدر طیب ایردوان سعودی عرب کا دورہ کرنے پر آمادہ ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ مڈل ایسٹ کی روایتی سیاست میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کوخاص اہمیت حاصل رہی ہے ،دونوں ممالک نےاہم علاقائی اور عالمی ایشوز پر ہمیشہ یکساں موقف اپنایا کرتے تھے، تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایماء پر معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے نے دونوں خلیجی ممالک کے مابین قریبی تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے، آج اگر ایک طرف سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت پاکستانی جنرل باجوہ کو اعلیٰ ترین میڈل پیش کررہی ہے تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا سواگت کیا جارہا ہے۔میری نظر میں ہمارے خطے کی علاقائی صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور اس وقت دو علاقائی بلاک وجود میں آچکے ہیں، ایک بلاک میں متحدہ عرب امارات، امریکہ، بھارت اور اسرائیل ہیں تو دوسرے میں سعودی عرب اپنے دیرینہ دوست ملک پاکستان کے اشتراک سے اپنے مخالفین ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر نیا بلاک بنانے کیلئے کوشاں ہے۔عالمی مبصرین کی رائے میں امریکہ نئے علاقائی بلاک میںاسرائیل ، امارات اور بھارت کو شامل کرکے چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں قائم رہے اور ایران اور چین جیسے ممالک کو وہاں اپنی بالادستی قائم کرنے نہ دی جائے۔ افغانستان میں طالبان کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن فی الحال کسی ملک کی طرف سے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا، اب تازہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے خاموشی سے اپنا سفارتخانہ کابل میں فعال کردیا ہے اور افغانستان میں حالیہ زلزلے کے بعد بھاری مقدار میں امداد بھجوا کر طالبان کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی کوشش کی ہے، اسی طرح دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران گونتانامو بے میں قید آخری دو افغان شہریوں میں سے ایک کو امریکہ نے جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا ہے، ایسے اقدامات سے عندیہ مل رہا ہے کہ نئے بلاک میں افغانستان کی غیراعلانیہ شمولیت کی راہ بھی ہموار کی جارہی ہے۔ پاکستان کیلئے خارجہ محاذ پر صورتحال اس لحاظ سے بھی پیچیدہ ہے کہ پاکستان خطے کے تمام ممالک ماسوائے بھارت اور اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھتا ہے، تاہم علاقائی بلاکس میں بھارت کی موجودگی پاکستانی مفادات کیلئے بڑا خطرہ ہے جس کا واضح ثبوت چین کے زیراہتمام حالیہ برکس اجلاس ہے جس میں بھارت کے اعتراض پر پاکستان کونظرانداز کرنے کی اطلاعات ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خارجہ محاذ پر نہایت سمجھداری اور دوراندیشی سے کام لیا جائے ، پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے درست اور بروقت فیصلے کئے جائیں اورہر قسم کے تصادم سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)