تین آدمی، تین کہانیاں !

July 01, 2022

انسان کی طرح کسی بھی کتاب کا نام رکھنا بھی ضروری ہے ۔ عام طور پر آدمی اور انسان کو الگ الگ معانی میں بیان کیا جاتا ہے لیکن اپنی کتاب کو ’’چار آدمی ‘‘ کا نام دیتے ہوئے ان کے پیش نظر فرمودہ اقبال ’’باخبر شواز مقام آدمی /آدمیت احترام آدمی‘‘ کا معتبر رہا ہو گا ۔یہ چاروں آدمی کس طرح انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئے ۔ چنانچہ ایک بات تو طے ہوئی کہ ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب یکے ازکشتگان فکر اقبال ہیں اقبال ہی نے تو کہا ہے

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

اخوت یونیورسٹی اور فائونٹین ہائوس اور اخوت مائیکروفنانس اور دیگر ذیلی پروجیکٹ، اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے ضامن و لوازم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میدان عمل کے صاحب ہیں آپ کا تعارف سوابق و لواحق کی احتیاج سے بے نیاز ہے صرف ڈاکٹر امجد ثاقب...نام ہی کافی ہے ۔ اس کتاب کو بک کارنر جہلم نے بڑے چائو سے چھپوا کر شائع کیا ہے۔’’اخوت کا سفر‘‘ ایک ایسی دستاویز ہے جس سے ایک طرف ان کی جدوجہد اور مقصد کا پتا چلتا ہے تو دوسری طرف قومی زندگی میں فرد کی اہمیت اور اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔’’چار آدمی ‘‘ اخوت کے سفر کی اگلی کڑی ہے پیش نظر کتاب کو اصناف نثر کے کسی خانے میں رکھنا میرے لئے ممکن نہیں اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں یہ کتاب ایک جہان معنی ہے ۔ اس جہان معانی پر کچھ لکھنے کےلئے یہ مسئلہ جزوی طور پر انہوں نے ’’آخری دعا ‘‘ میں حل کر دیا:

’’تین کی بجائے چار آدمی ،چار کہانیاں اور ان میں چھپی تہ در تہ بیسیوں اور کہانیاں ۔

وہ بھی کیا ہستی ہے جو یہ کہانیاں تحریر کرتی ہے....‘‘

کتاب پڑھتے پڑھتے ان سطور پر پہنچ کر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ بھی کیا ہستی ہے جس نے یہ تین کہانیوں بلکہ چار کہانیوں کو ایک کتاب مالا ، میں پرو دیا ۔فائونٹین ہائوس میں تینوں ارواح کو اپنے روحانی تصرف سے الفاظ میں ملبوس کرکے ماضی و حال کے رابطے کا وہ تانا بانا بنا کر پڑھنے والا خود کو دونوں زمانوں میں سفر کرتا محسوس کرنے لگتا ہے یہ ان کی اپنی کاریگری ہے یا اس میں ان روحوں کا تصرف بھی شامل ہے ۔ یہ تو ڈاکٹر صاحب خود ہی بتا سکتے ہیں البتہ اس کتاب میں متعلقہ شخصیات کا ہمہ جہت گہرا مطالعہ بھی شریک کار رہا ہو گا۔جس کی تائید کتاب کی آخری سطور سے ہوتی ہے :’’میں سوچنے لگا کیا یہ خواب تھا یہ لوگ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے اس گفتگو کے دوران وقت کیوں تھم گیا ....اتنا طویل وقت کہاں گیا ...کیا وقت کے اندر اور وقت بھی ہوتا ہے ....خواب لیکن یہ نہیں تھا جو باتیں ہوئیں وہ سچ تھیں کردار، واقعات، تربیت، تقویم سب درست۔‘‘ کہانی میں شاید ہی کوئی کردار فرضی ہو ۔

گویا ڈاکٹر صاحب نے رشید چودھری، معراج خالد اور سر گنگا رام کے منہ سے جو واقعات و انکشافات بیان کروائے ہیں حقائق ہیں مگر اسلوب ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کا اپنا ہے ۔اس کا مطالعہ کرتے ہوئے رقت کے مراحل بھی آئے ۔

آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

’’چار آدمی ‘‘ زمین کا بوجھ اٹھانے والے مردان در دوعمل اور گپت درویشوں کی داستان چشم کشا ہے اسے خود نوشت کہوں ، تذکرہ نویسی کہوں یا سرگزشت ،سچی بات یہ ہے کہ کتاب کا ورق ورق انسان، انسانیت اور انسانی جدوجہد کی فلاسفی اور کیمسٹری سے عبارت ہے ۔ ’’آواز دوست‘‘ کے بعد یہ پہلی کتاب ہے جس نے پوری طرح میرے فکرو احساس کو اپنے حصار میں لئے رکھا ۔سر گنگا رام کا تذکرہ ہو یا رشید چوہدری یا معراج خالد کی جہد حیات کا بیان، انہوں نے لاہور کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔میری طرح ان کی جائے پیدائش بھی لاہور نہیں مگر لاہور سے عشق، ان درویشوں اور مجھ فقیر کا مشترکہ اثاثہ ہے ۔اس کتاب میں اس وقت کے لاہور کے موجود اور معدوم مقامات کے بارے میں ایسی نادر معلومات ، واقعات ملتے ہیں جو انکشاف کا درجہ رکھتے ہیں ۔ مثلاً فائونٹین ہائوس کی تملیک و تعمیر اور ہندو بیوہ گھر سے فائونٹین ہائوس کی تاسیس ،ہندو بیوہ گھر کی تعمیر کامحرک اس دیے سے روشن ہونے والے دیگر چراغ، 1930تک لاہور کیا تھا کون سی مشہور بلڈنگ، ادارہ کب کہاں معرض وجود میں آیا اور اب اس کا معرض کہاں ہے ۔دھنی رام ،مشن سنگھ، ہری سنگھ نلوہ، دھیان سنگھ، رام سنگھ دولت رام، کرنل نیپیئر، رابرٹ کپلنگ، جان لارنس اور اس کے مجسمے کا حشر، سرشاہ دین،ر ڈیارڈ کپٹنگ، گنگا پور گائوں، سر گنگا رام ٹرسٹ کا قتل عمدیہ سب باتیں میرے اس دعوے کو دلیل صرف آپ کے یہ کتاب پڑھنے سے مل سکتی ہے ۔ ایک تجسس جو ڈاکٹر صاحب نے آخر تک برقرار رکھا وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب، اس داستان کے پہلے درویش اور فائونٹین ہائوس کے بانی ڈاکٹر رشید چوہدری کے بھانجے ہیں ،چند جملے اس کتاب سے نقل کرنے پر مجبور ہوں۔

’’اپنی زندگی کا اختیار ایسے لوگوں کو مت دو جو کم ظرف ،فاتر العقل اور بددیانت ہوں‘‘..... ’’انسان وقت کو نہیں وقت انسان کو ضائع کرتا ہے۔‘‘... ’ ’نیکی ضائع نہیں ہوتی فقط چہرہ بدلتی ہے ۔‘‘... ’’نیکی کرکے بھلا دینا بھی نیکی ہے ۔‘‘ ...’’کامیابی حصول مقصد کےلئے ہوتی ہے کسی کو مغلوب کرنے کی خاطر نہیں ۔‘‘

گپت درویش نے اپنے حصے میں اپنی جملہ تصانیف کا اجمال اور اخوت کی وہ کہانی بیان کی ہے جو مفصل’’اخوت کا سفر‘‘ میں بیان کی جا چکی ہے۔لندن میں قیام کے دوران جب ان کے دل کے آپریشن کے لئے حکومت پنجاب نے انہیں پچاس لاکھ روپے علاج کے لئے عطیہ کئے تو انہوں نے یہ رقم لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس رقم کی ضرورت ان مریضوں کو ہے جو اسپتال کے برآمدوں میں جان دے دیتے ہیں، میرے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ ان کا عجز کہتا ہے کہ ’’یہ انکار کوئی بڑی بات نہیں تھی ‘‘ مگر ہمارا فخر کہتا ہے کہ یہ بہت بڑی بات تھی۔