گوہر ہائے نایاب و آب دار؟

July 01, 2022

لندن میں میثاقِ لندن ہوا تھا جسے میثاقِ جمہوریت کانام دیا گیا تھا بعد میں اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیلئے جب’ ن‘ لیگ نے زیادہ زور دیا تو سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر” بادشاہ گر“ نے صاف کہہ دیا کہ معاہدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے(استغفر اللہ )، نواز لیگ نے کافی عرصے تک اس بات کو دہرایا بار بار یاد دلایا لیکن بادشاہ گر نے ایک نہ سنی ، ایک معاہدہ اب ہمارے بھائی لوگوں نے اس لائی جانے والی حکومت کے ساتھ اتحادی بن کر کیا تھا،لکھت پڑھت ہوئی، دو نوں اطراف سے عہد و پیماں بھی ہوئے ۔معاہدے کو ایک ماہ سے زیادہ گزر گیا ۔ اب جب اس کی روشنائی پھیکی پڑنے لگی تو ایم کیو ایم کو یاد آیا کہ اس پر عملدرآمد کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔

زیادہ مسئلہ اس بات پر بنا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں حالیہ بلدیاتی الیکشن میں مکمل صفایا کردیا ۔ساری نشستیں لے اڑی۔ ’’بھٹو زندہ ہے‘ ‘ کوسچ ثابت کر دکھایا ۔ جی ڈی اے نے بھی کمر کس لی ہے ،آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں، اے این پی نے خیبر پختونخوامیں گورنر شپ لینے سے اصولی معذرت کرکے سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے ۔ ایم کیو ایم اور دوسری اتحادی جماعتوں کی طرف سے اب علیحدگی کی دھمکیاں آتی نظر آرہی ہیں ۔ مولانا کا کہنا ہے کہ عمران خان کو امریکہ نے نہیں بلکہ میں نے چلتا کیا ہے۔طرفہ تماشہ تو یہ بھی ہے کہ انتخابی ہزیمت کے بعد اس بڑی اتحادی جماعت کی سندھ میں پارٹی قیادت نے اب’ ’زرداری بھگائو ،سندھ بچائو “ تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔

آنے والوں نے پہلے اپنی گلوخلاصی کی سبیل کرنی تھی تو سو وہ اچھے طریقے سے کر لی ہے ۔ پرانی سیاست پھر شروع ہوگی ،نئے مقدمات میں آئے روز الجھا کر اصلی اورسب سے بڑی اپوزیشن جماعتوں کو دن میں تارےدکھانا مقصود ٹھہراہے۔ سوجیسا پہلے ہوا تھا اب بھی ویسا ہی ہوگا ۔کہتے ہیں کہ پرامن احتجاج کا مہذب معاشروں میں مہذب ترین حکومتوں پر اثر ہو اکرتا ہے، پاکستان میں یہ روایت روزِ اول سے ہی نہیں پنپ سکی جو بھی آیا،لایا گیا ہے ،باہر سے امپورٹ کیا گیاہے یا باہر ایکسپورٹ کیا گیا ہے۔ ہر ایک کو ایک وقتِ معینہ کے لیے کروفر عنایت کی جاتی ہے جو دائرے کے فسوں سے باہر نکلے اس کو اقتدار و اختیار ہی سے باہر نکال دیا جاتا ہے کسی کو دن کی روشنی میں ، کسی کو سہ پہر اورکسی کو رات کے پچھلے پہر ، کوئی زیادہ گستاخ بن جائے تو تختہ دار پر !لیکن ایسی کوئی دوسری مثال قائم کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ ایک ہی مثال کافی تھی۔

کئی دہائیوں کے بعد ایک سر پھرے شخص نے اقتدارمیں آکر ہزاروں میل دور بیٹھے ہمارے دوست کو للکارا ۔اس پر بے سرو پا الزام لگایا کہ وہ میرے خلاف ہوچکا ہے، وہ کچھ نہ کچھ کرکے ہی رہے گا ، چیخ چلا کر سب کو بتایا لیکن کسی نے آہ و فغاں پر کان ہی نہ دھرے ،طفل تسلی دی، نہ مانا تو رات کی تاریکی میں عین بارہ بجے مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر کردیا کہ تم اس منصب کے اہل نہیں ہو ، کرپشن تواس ملک کا بڑا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ تم کیا رات دن ہر بات میں، ہر ملاقات میں، ہر فورم پر صبح و شام’ نہیں چھوڑوں گا ، کرپشن ختم کروں گا‘ کی رٹ لگارہے ہو ۔کوئی ڈھنگ کا کام بھی کرو ،عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری سے نجات دلائو،لیکن وہ ایسا نہ کرسکا ،پھر اشارہ ابرو پر یقین دہانیوں کے دعویداروں نے مہنگائی مکائومارچ شروع کردئیے۔ عوام کو بخوبی علم تھا کہ یہ ہمارے لئے نہیں ہو رہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ عوام کا قیاس درست تھا ۔ آتے ہی مہنگائی کا ایسا طوفان اٹھایاکہ عوام اش اش کراٹھے اور اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے ، کیا چن چن کر خوبصورت ہیرے بلکہ گوہر ہائے نایاب و آبدار قوم کی نذر کئے گئے ۔ انہوں نے آتے ہی پٹرول مہنگا کردیا ، آٹا گھی دالیں سب مہنگی کردیں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھادیا، بجلی اور گیس کی قیمتوں کوپر لگادیے،اب سانس اور پانی پر بھاری بھرکم ٹیکس لگانا باقی ہے سو دیکھیں کہ اس کی باری کب آتی ہے ، سپر ٹیکس سے کہتے ہیں کہ قوم کو فائدہ ہوگا ۔اب بڑے بڑے امراء، رؤسا،صنعتکار اور جاگیردار بھی ٹیکس دیں گے۔کب ؟کسی کو علم نہیں۔ ہاں غریب لوگ اس دن کے شدت سے منتظر ہیں جب انہیں یوٹیلیٹی اسٹورز سے سستا راشن ملے گا۔ کب؟ انتظار جاری ہے۔