بجلی کی قیمت

July 03, 2022

گذشتہ ماہ کے دوران آئی ایم ایف کے دباؤ پر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ یکم جولائی سے بجلی کے نرخوں میں بھی 91۔7 روپے فی یونٹ اضافے کا اعلان کیا تھا تاہم جلد ہی غریب و متوسط طبقے کی سہولت کےلئے اسے مرحلہ وار نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے جمعہ کے روز پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا یہ عمل جولائی سے اکتوبر کے مہینے تک جاری رہے گا جبکہ نومبر سے بجلی کے نرخوں میں کمی شروع ہو جائے گی ۔ وفاقی وزیر کے مطابق 22 جولائی سے ترسیلی نظام میں بھی بہتری آنے لگے گی۔ گردشی قرضوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے دور میں یہ 1060 ارب روپے تھا جسے سابقہ حکومت نے 2467 ارب روپے تک پہنچا دیا۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بجلی کی طلب و رسد کا دارومدار موسم پر ہوتا ہے جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے بھی اس کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی رو سے حالیہ دنوں میں اس کی طلب آل ٹائم ریکارڈ 30 ہزار 9 میگاواٹ تک پہنچ گئی جبکہ وزارت توانائی حد پیداوار 21 ہزار 842 میگاواٹ تک حاصل کرسکی۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ گردشی قرضوں کی بڑی وجہ لائن لاسز اور بجلی کی چوری ہے جس کے اثرات پیداواری لاگت اور وصولیوں میں فرق کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس صورتحال کے پیدا کرنے میں گھریلو اور صنعتی و کاروباری سبھی حلقے شامل ہیں اور فی الحقیقت یہی وہ عنصر ہے جو بجلی کی مد میں نہ صرف حکومت کو 2467 ارب روپے کا مقروض کئے ہوئے ہے بلکہ ذمہ داری سے بل ادا کرنے والے صارفین پر اضافی بوجھ بنا ہوا ہے۔ حکومت کے پاس بجلی چوری سے نمٹنے کے لئے مکمل مکینزم موجود ہے جسے بلا تاخیر مکمل نتائج حاصل ہونے تک بروئے کار لایا جانا چاہئے جس سے اقتصادی مسائل میں گھری حکومت اور غریب و متوسط ر طبقہ اپنے اوپر پڑے بے جا بوجھ سے آزاد ہوسکے۔