بلاسود بینکاری کا دوسرا رخ

July 04, 2022

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حق پرست علما ء کی طرح میں بھی سود کو برائی خیال کرتا ہوں اور یہ خواہش رکھتا ہوں کہ ہمیں سود پر مبنی اس بینکاری نظام سے چھٹکارا ملے ۔جب سے وفاقی شرعی عدالت نے سود کی بنیادوں پر استوار کئے گئے اس بینکاری نظام کو غیر اسلامی قرار دیا ہے تب سے یہ بحث پھر سے شروع ہوگئی ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے والے بینکوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔اگرچہ علما کے درمیان ربا کی تشریح و تعبیر سے متعلق واضح اختلافات موجود ہیں ،بعض علما کا خیال ہے کہ قرآن میں جس ربا کی حرمت بیان کی گئی ہے وہ موجودہ بینکاری نظام سے مختلف ہے۔اسلام کی غرض و غایت یہ تھی کہ ساہوکار حاجت مندوں کو سود پر قرضہ دےکر انہیں اپنے چنگل میں نہ پھنسا لیںلیکن بینکوں سے قرض لینے والے غریب نہیں ہوتے بلکہ ایسے صاحب حیثیت ہوتے ہیں جو اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہتے ہیں ۔لیکن ظاہر ہے کہ اس پیچیدہ معاملے پر علماء کرام ہی اظہار خیال کرسکتے ہیں۔میں تو بس وہ عمومی نوعیت کے سوالات آپ سب کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو شاید بیشتر افراد کے اذہان میں سر اُٹھا رہے ہیں۔اگر سود یعنی ربا کو ختم کردیا جائے تو اس کا متبادل کیا ہے؟یعنی بینک اضافی رقم کا مطالبہ کئے بغیر قرض دینا شروع کردیں تو ان کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ملازمین کی تنخواہیں ،سینکڑوں شاخوں کو چلانے کے اخراجات اور پھر جو ا س بینک کے شیئر ہولڈر ہیں اگر انہیں منافع نہیں ہوگا تو وہ بینک کھولیں گے ہی کیوں؟اس کا متبادل اسلامی بینکاری نظام مضاربہ اورمشارکہ کی شکل میں متعارف کروایا جاتا ہے۔اب اگر آپ پوچھیں کہ ان کا مفہوم کیا ہے تو اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ہی کالم کی گنجائش ختم ہو جائے گی اور اصل بات رہ جائے گی۔شاید اکابرین اسلام کا مطمع نظر بھی یہی ہے کہ اسلامی اصطلاحات کو اس قدر مشکل اور دقیق الفاظ میں بیان کیا جائے کہ عام آدمی سمجھ ہی نہ پائے۔مضاربہ اور مشارکہ کی جو عملی شکل ہمارے سامنے موجود ہے وہ اسلامی بینکاری نظام ہے۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ میاں نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں جب وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی توپرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عدالت عظمیٰ نے یہ اپیل مسترد کرتے ہوئے سود پر مبنی بینکاری نظام کو غیر اسلامی قرار دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔چنانچہ 2000 ء میں بینکاری نظام کو مشرف بہ اسلام کرنے کا کام شروع ہوا۔کئی اسلامی بینک وجود میں آئے تو پہلے سے کام کر رہے بینکوں نے فوراً اسلامیبینکاری نظام کی کھڑکیاں کھول دیں ۔چیک بک ،اے ٹی ایم ،ڈیبٹ کارڈ سب کچھ جوں کا توں رہا بس انگریزی اصطلاحات کی جگہ عربی کے ایسے الفاظ نے لے لی جو کھاتہ داروں کے لئے تسلی و تشفی کا باعث ہوں ۔ مثال کے طور پر اسلامی بینک بھی دیگر بینکوں کی طرح قسطوں پر گاڑی خریدنے کے لئے قرض دیتے ہیں لیکن اسےگھما پھرا کر کان دوسرے ہاتھ سے پکڑنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔عام بینک میں کہا جاتا ہے کہ بینک گاڑی لیز پر دے رہا ہے تواسلامی بنک میں اسے ’کار اجارہ‘قرار دیا جاتا ہے۔فریب کاری یہ ہے کہ بالعموم بینک جو ماہانہ قسط وصول کرتے ہیں اسے انٹرسٹ یا سود کہا جاتا ہے لیکن ’کار اجارہ‘ میں یہ تاویل بروئے کار لائی جاتی ہے کہ جس طرح آپ مکان میں رہتے ہوئے اس کا کرایہ ادا کرتے ہیں اسی طرح کار کا ’اجارہ‘ادا کرنا پڑتا ہے۔لیکن دونوں طرف نصاب ایک ہی ہے ،20لاکھ کی گاڑی پر پانچ سال کے دوران 30لاکھ اداکرنا ہی پڑیں گے۔سودپر چل رہے بینکاری نظام میں مخصوص مدت کےلئے رقم جمع کروانے پر بتایا جاتا ہے کہ پانچ سال کےلئے ٹرم ڈیپازٹ پر 9.56 فیصد جبکہ 7سال کے لئےفکس ڈیپازٹ پر 9.71فیصد انٹرسٹ ملے گا جبکہ اسلامک بینک میں یہ سہولت حاصل کرتے وقت آپ کو بتایا جاتا ہے کہ الحمدللہ ہم آپ کے سرمائے سے کاروبار کریں گے اور آپ کو سالانہ 9.56فیصد منافع ہوگا۔کیا کبھی ایسا ہوا کہ اسلامی بینک میں جمع کروائی گئی رقم پر منافع کی شرح 30فیصد رہی ہو یا پھر نقصان ہوگیا ہو ؟ظاہر ہے اگر کاروبار کیا جارہا ہے تو پھر اس میں اتار چڑھائو فطری سی بات ہے ۔لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے اور ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔اسلامی بینک دعویٰ کرتے ہیں کہ کھاتہ داروں کی جمع کروائی گئی رقوم حلال اسکیموںمیں لگائی جاتی ہیں لیکن یہ بات بھی سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔اگر آپ کے پاس وقت ہو تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ریکارڈ نکلوا کر دیکھ لیں کہ اسلامی بینکوں نے کتنا سرمایہ فیڈرل گورنمنٹ سکیورٹیز میں لگا رکھا ہے۔اسلامی بینکوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ حکومت پاکستان کو دیئے گئے یہ قرضہ جات ہیں جن پر سالانہ اربوں روپے حکومت سود کی مد میں ادا کرتی ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اسے اینٹرنل ڈیبٹ سروسنگ کہا جاتا ہے۔اسلامی بینک سود سے حاصل ہونے والی اس رقم کو حلال ظاہر کرنے کےلئے اس اسکیم کو ’اجارہ سکوک ‘ کانام دیتے ہیں۔اسلامک بینکنگ کا ایک فائدہ ہوا کہ مفتیان کرام اور مشائخ عظام کو روزگار مل گیا اور ان نام نہاد اسلامی بینکوں نے ان صالحین کو بھاری بھرکم مشاہرے پر شریعہ بورڈ میں نوکری دیدی یا پھر بطورشرعی ایڈوائز خدمات حاصل کرلیں ،اس بندوبست کا فائدہ یہ ہوا کہ بینکاری نظام چلانے والے سرمایہ کارخوش ہیں ،مفتیان کرام راضی ہیں اور کھاتہ دار بھی مطمئن دکھائی دیتے ہیں ۔اب جو فیصلہ آیا ہے اس کے بعد بھی غالباً یہی ہوگا ،پرانے بورڈ ہٹا کر ان کی جگہ اسلامک بینکنگ کے نئے بورڈ آویزاں کردیئے جائیں گے ۔بچے کھچے علمائے کرام کو ملازمتیں مل جائیں گی اورصارفین مطمئن ہو جائیں گے۔جس طرح ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ وطن عزیز میں چاہے اسلام اور جمہوریت ہو نہ ہو ،نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونا چاہئے اسی طرح بینکار ی نظام میں بھی چاہے سب جوں کا توں چلتا رہا ۔بس اسلام کا ٹھپہ لگا دیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)