ضیاء سے پہلے اور بعد

July 05, 2022

چند سال پہلے ایک غیر ملکی سفر کے دوران میری ملاقات ایک ڈچ شخص سے ہوئی، دورانِ گفتگو اس نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ میں ستر کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں پاکستان گیا تھا۔ وہ تو بہت پر امن ، روشن خیال اور مہذب لوگوں کا ملک تھا۔ اسے یہ کیا ہو گیا؟ پھر وہ خود ہی مسکراتے ہوئے بولا ’’ اسے شاید ضیا الحق ‘‘ لاحق ہوگیا ہے(Perhaps Zia ul Haq happened to him)۔

اُس غیر ملکی ڈچ مسافر نے ایک فقرے میں ہماری تقریباًچالیس سالہ تاریخ اور مصائب کو بیان کردیا تھا۔ واقعی اب 5جولائی 1977سے پہلے کا پاکستان ایک خواب لگتا ہے۔ وہ پاکستان جہاں نہ تو مذہب کے نام پر بیگناہوں کا خون بہایا جاتا تھا، نہ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوئے تھے۔ نہ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر تھا، نہ اغوابرائے تاوان کے واقعات ہوتے تھے اور نہ لوڈ شیڈنگ اور غربت کا یہ عالم تھا۔ وہ ایک پر امن معاشرہ تھا۔ جہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے، لوگ ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے کوئی ان کے لباس یا حلیے پر تنقید نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی ان کے کھانے پینے یا عقیدے کے بارے میں کسی کو پروا تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کشمیر ، فلسطین اور تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے ہیرو تھے۔ لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد نے پاکستان کو مسلم دنیا کا لیڈر بنا دیا تھا، جس سے سامراجی طاقتیں خوفزدہ تھیں کیونکہ بقول ذوالفقار علی بھٹو’’ہاتھی(اس وقت کی امریکی ڈیموکریٹک حکومت کا پارٹی نشان)کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ ابھی تک ویت نام ، فلسطین اور قبرص کے بارے میں ہماری پالیسیوں کو بھولا نہیں اور وہ ہمیں اس کی سزا دینا چاہتا ہے‘‘ پھر ایسا ہی ہوا پاکستان جو روشن خیالی ، امن اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکا تھا۔ اسے 1977کے عام انتخابات سے پہلے راتو ںرات تشکیل پانے والے بھٹو مخالف سیاسی اتحاد کے ذریعے عدم استحکام کا شکار بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

1977کے عام انتخابات اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات سے کہیں زیادہ شفاف تھے، جس کا اعتراف بھٹو مخالف سیاستدانوں نے خود کئی بار کیا ہے۔ لیکن پاکستان ، عالم ِ اسلام اور تیسری دنیا کو عظیم بھٹو کی قیادت سے محروم کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی فتح کو دھاندلی کا نام دیکر انہیں ایک سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ حالانکہ بھٹو پی این اے کا نئے انتخابات کے انعقادکا مطالبہ بھی مان چکے تھے۔ لیکن آمرضیاء الحق ایک بڑے سازشی مہرے کے طور پر سامراجی طاقتوں کے ساتھ مل چکا تھا۔ اپنی حکومت کے آخری ایّام کی ایک تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا جسے وقت نے سچ ثابت کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے نہیں پتہ میرے بعد فرشتے آئینگے یا راسپوٹین ‘‘۔راسپوٹین زا رِ روس کے آخری زمانے کا ایک پادری تھا۔ جو مذہب کے نام پر ہر طرح کی مکّاری اور عیاری کو جائز سمجھتا تھا۔ چنانچہ مذہب کے نام پر چلنے والی اس تحریک ِ نظامِ مصطفیٰ کے نتیجے میں ضیاء الحق برسرِ اقتدار آگیا یا بقول ڈچ سیاح ’’ پاکستان کو ضیاء الحق ، لاحق ہوگیا۔ ‘‘ اس نے صرف پاکستان کو ہی نہیں پوری دنیا خصوصاََ مسلم دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اس نے مذہب کے نام پر جھوٹ اور منافقت کو رائج کیا ، اس نے ایک ریفرنڈم کرایا جس میں پوچھا گیا کہ کیا عوام اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اگر وہ ہاں کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ جنرل ضیاء کو صدر منتخب کرنا چاہتے ہیں۔۔ (ہے کوئی اس سے بڑی غیر منطقی دلیل؟) اس نے ملک گیر عوامی جماعت پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے اندرونِ سندھ علیحدگی پسندوں کو مضبوط کیا اور سندھ کے شہروں میں کئی فرقہ وارانہ اور لسانی گروہوں کی سرپرستی کی اس کے غیر جماعتی انتخابات نے قوم کو عمودی اور افقی ہر سطح پر تقسیم در تقسیم کردیا۔ اس نے اپنے سیاسی مخالفین کو سرِعام کوڑے مارنے کی غیر انسانی سزائیں دیں۔ اس کے نام نہاد اور خود ساختہ نظام ِ زکوٰۃ اور نظام ِ عدل نے کرپشن کے نئے دروازے کھول دئیے۔ اس نے ہر ممبر اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر لاکھوں روپے دیکر ضمیر فروشی کو سیاست کا حصّہ بنا دیا۔ اس نے اپنی غیر جمہوری آئینی ترامیم خصوصاََ آٹھویں ترمیم کے ذریعے آمریت کو آئین کا حصّہ بنا دیا۔

جنرل ضیاء کو عالمی تاریخ بھی اس لیے معاف نہیں کرے گی کہ اس نے سوویت یونین کے خلاف امریکی بالا دستی کی جنگ میں ہراول دستے کے طور پر حصّہ لیکر جہاں پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی اور غارت گری کی دلدل میں پھینک دیا۔ وہیں سوویت یونین کے زوال کے بعد پوری دنیا کو امریکہ کی یک طاقتی (Unipolar)دہشت گردی کے حوالے کردیا۔ جس کا سب سے زیادہ شکار مسلم ممالک ہی بنے جبکہ تیسری دنیا کے غیر مسلم ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہوگئے ۔ امریکہ کو اپنے نیوورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کے لیے کویت، عراق، افغانستان اور ایران سمیت دیگر خلیجی ممالک میں کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 5جولائی 1977ء صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کیلئے ایک خوفناک دن ثابت ہوا۔ آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی میجر جنرل (ریٹائرڈ) اطہر عباس نے بجا طور پر کہا ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت اور جہادیوں کو پالنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ہی وہ ضیا ء الحق کے لگائے ہوئے زخموں کا مداوا کر سکتی ہے۔ ضیاء الحق کے فلسفے اور عمل کو تاریخ نے اس طرح باطل ثابت کردیا ہے کہ آج اس کے پروردہ سیاست دان بھی اس کانام لینے کیلئے تیار نہیں۔