الیکشن کمیشن کا فیصلہ

August 07, 2022

الیکشن کمیشن نے بالآخر8سال بعد پی ٹی آئی کے خلاف غیر ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا ۔یہ فیصلہ بظاہر عمران خان کے خلاف ایک چارچ شیٹ ہے جو آنے والے دنوں میں ان کی پارٹی کی رجسٹریشن کی منسوخی اور عمران خان کی نا اہلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے اس کیس کی سماعت کو روکنے اور الیکشن کمیشن کو کوئی بھی فیصلہ کرنےسےرُکوانےکےلیےہرحربہ استعمال کیا ۔الیکشن کمیشن نے 24جون2022ء کو ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کر دیا تھا اس دوران پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی سے چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان کو ہٹانےکے لیے قراردادیں منظور کروائی گئیں جب کہ دوسری طرف وفاقی حکومت ، پی ڈی ایم اور عمران خان مخالف سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو عمران خان کے دبائو سے نکالنےکیلئےاس کی اخلاقی سپورٹ کر تی رہیں ۔پی ٹی آئی کے ترجمان الیکشن کمیشن کے فیصلے کو’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘قرار دے کر اپنی خفت مٹارہے ہیں جب کہ فیصلہ بذات خود ایک پہاڑ ہے جس کے بوجھ تلے پی ٹی آئی کے دب کر رہ جانے کا امکان ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ’’ پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی ہے،پی ٹی آئی نے34غیر ملکیوں سے فنڈز لئے جب کہ 8اکائونٹس کو پی ٹی آئی نے اون کیا اور 13اکائونٹس کو پوشدہ رکھا ۔پی ٹی آئی نے ابراج گروپ سمیت متعد د غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈز وصول کئے۔‘‘ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے،’’ بینک اکائونٹس چھپانا آئین کے آرٹیکل 17کی خلاف ورزی ہے۔‘‘ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی طرف سے جمع کرائے گئے ڈیکلریشن کو غلط قراردینے کے بعد پی ٹی آئی کو شو کاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے کہ کیوں نہ ممنوعہ فنڈز ضبط کر لئے جائیں؟‘‘ الیکشن کمیشن نے68صفحات پر مشتمل فیصلہ اپنی سفارشات کے ساتھ کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کو بھجوا دیا ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد اس معاملے پر بڑی حد تک الیکشن کمیشن کا کردار ختم ہو گیا ہے، اگلا مرحلہ اب وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف ریفرنس دائرکرنے کا شروع ہو گا بس یہی کوئی 15دن کی بات ہے، وفاقی کابینہ نے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس پر ڈیکلریشن تیار کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس حکومت یا کوئی سیاسی جماعت لے کر نہیں آئی بلکہ’’ گھر کےبھیدی ‘‘ اکبر ایس بابر نے ایک طویل عدالتی جنگ لڑکر عمران خان کی مالی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کیا ہے۔عمران خان پچھلے چند برسوں سے اپنے سیاسی مخالفین کو’’چور اور ڈاکو‘‘ کے خطابات سے نواز رہے ہیں بلکہ سیاسی مخالفین کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہنا ان کا تکیہ کلام بن چکاہے اور خود سپریم کورٹ کا عطا کردہ ’’امین و صادق‘‘ کا سرٹیفکیٹ لہر اکر اپنے دیانت دار ہونے کے دعوے کرتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلہ نے عمران خان کی شخصیت کا سحر بڑی حد تک ختم کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایجنڈے کی اولین ترجیح چیف الیکشن کمشنر کو ان کے منصب سے ہٹوانا ہے، عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ کے بارےمیں ایک اور یو ٹرن لیا ہے اور کہا کہ ان کی گارنٹی ’’نیوٹرلز‘‘نے دی تھی۔ وہ اب برملا طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ سکندرسلطان راجہ کی تقرری کے لئے ان کی جانب سے نام نہیں دیا گیا تھا ، الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اپنے دفاع میں مختلف تاویلیں اور تشریحات پیش کر رہی ہے لیکن یہ حقیقت واضح ہوچکی ہےکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے نے پی ٹی آئی کو بیک فٹ پر لا کھڑا کیا ہے ۔ چند روز قبل تک پی ٹی آئی پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی اور ’’تخت لہور‘‘ پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کا پرچم لہرانے پر خوشی کے شادیانے بجا رہی تھی، آج مگر اسے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لالے پڑ ے ہوئے ہیں اور وہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جو اس کے لیےکسی ’’ڈرون اٹیک ‘‘ سے کم نہیں، کی تبا ہ کاریوں سے بچنے کے لیے مختلف فورمز کا رُخ کر رہی ہے۔ عدلیہ کے ذریعے کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے سے اس کی مقبولیت میں کمی تو کی جاسکتی ہے لیکن اسے عوام کے دلوں سے نکالا نہیں جا سکتا۔ تاہم، قانون کے شکنجے میں آنے والی جماعتوں سے ان کی منزلِ اقتدار دور ہو جاتی ہے۔

مجھے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کچھ ایسا ہوتاہی نظر آرہا ہے ۔عمران خان کا مقابلہ سیاسی طور پر ہی کیا جانا چاہئے لیکن اس کے ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف کے لیے بھی برابر کے موقع دستیاب ہونے چاہئیں۔ نواز شریف کو نا اہل قرار دلوا کر عمران کے لیے کھلا میدان فراہم کر دینا بھی انصاف کے اصولوں کے منافی ہے ۔پی ٹی آئی کے خلا ف الیکشن کمیشن کے فیصلے نے پی ڈی ایم میں جان ڈال دی ہے، خیبر سے لے کر گوادر تک پی ڈی ایم کا ہر لیڈر اور کارکن عمران خان کو ’’چور اور خائن‘‘ ثابت کرنے کے لئے مسلسل گولہ باری کر رہا ہے، پی ٹی آئی کے خلاف پورے ملک میں ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت الیکشن کمیشن کے فیصلے سے بچنے کے لئے قانونی نکات تلاش کر رہی ہے تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس قانون اور اصول نے نواز شریف ، جہانگیر ترین اور فیصل واڈا کے لیےملکی سیاست ممنوع قرار دی ، وہ عمران خان کو بھی بچ نکلنے کا راستہ نہیں دے گا۔