پاکستان کا سنگین معاشی بحران

August 08, 2022

سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کے باعث پاکستان سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ، بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر میںتشویش ناک حد تک کمی، کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافہ، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں Moodys، Fitch اور S&P کا پاکستان کی آئوٹ لک مستحکم سے منفی کرنا، دوست ممالک سے مالی امداد، تیل، گیس کی ادھار سہولت اورآئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر، حکومت پاکستان کے سکوک ڈالر بانڈز کی عالمی مارکیٹ میں 50 فی صد سے زیادہ کمی کے علاوہ روپے کی قدر میں گراوٹ جو240 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، انٹربینک میںکم ہوکر اب225 روپے پرآگیا ہے اور یوں پاکستانی کرنسی جوکبھی ایشیاکی مضبوط ترین کرنسی ہوا کرتی تھی، آج ترکش لیرا اور سری لنکن روپے کی طرح ایشیا کی کمزور ترین کرنسی بن گئی ہے۔سابقہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 55روپے کمی سے روپیہ 180روپے پر پہنچ گیا تھا جب کہ 11اپریل کو پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے برسرِاقتدار آنےکے بعد سے اب تک روپے کی قدر میں 45روپے کی مزید کمی سے ڈالر 224روپےکا ہوگیا ہے اور روپے کی قدر میں حالیہ اضافے کی وجہ ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کریک ڈائون، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو متحدۂ عرب امارات اور سعودی قیادت سے مالی امداد کی یقین دہانی، امپورٹ اور ڈالر کی طلب میں کمی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ڈالر انٹربینک میں گزشتہ4دنوں میں 14روپے کم ہوا ہے لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف کی قسط ملنے تک روپے پر دبائو برقرار رہے گا۔

ڈالر کی طلب میں اضافے کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی اضافی امپورٹ اور ڈالرز کی پاکستان سے افغانستان اسمگلنگ بھی ہے جس کے باعث پشاور میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر250روپے اور افغانستان میں 255روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے اکائونٹس سے افغانستان کی امپورٹ کیلئے بھی ڈالر دیے جارہے ہیں جس سے ہمارا ماہانہ امپورٹ بل 4.5ارب ڈالر سے بڑھ کر 7.5 ارب ڈالر تک چلا گیا تھا اور ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر جو گزشتہ سال 20ارب ڈالر تھے، اب 8.5 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر آنے کے بعد بہ مشکل 6 ہفتے کی درآمدی ضرورت پورا کرنے کے قابل رہ گئے ہیں۔ بیرونی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک وجہ حکومت کے مئی اور جون 2022ء میں 6.2ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ ہے جس میں 3ارب ڈالر کے فرنس آئل کی اضافی ایڈوانس امپورٹ بہت بڑی غلطی تھی کیوں کہ یہ آئل آنے والے مہینوں میں استعمال کیا جائے گا جس کے بارے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ فرنس آئل کا اسٹاک پورے سیزن کے لیے موجود ہے لیکن ان نازک حالات میں قومی خزانے سے 3ارب ڈالر نکل جانے سے ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر 8.5 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں ۔

پیٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمتوں اور صارفین سے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافے سے مہنگائی میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہوا ہے جس سے افراطِ زر(25فی صد) CPI اور(37فی صد) SPIکی 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جب کہ آئی ایم ایف کی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے دیگر عالمی اداروں سے بھی فنڈز کی سہولت کا حصول تعطل کا شکار ہے لیکن سیاسی جماعتوں میں اس سنگین صورتِ حال پر تشویش نظر نہیں آ رہی۔ موجودہ معاشی بحران میں FPCCI، کراچی چیمبرز اور 50 سے زائد ٹریڈ باڈیز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے پاکستان میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز جن میں پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں، افواج پاکستان، معیشت دان، بزنس لیڈرز اور اسٹیٹ بینک شامل ہیں ، کو صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے موجودہ معاشی بحران کے مدِنظر امریکی نائب وزیر خارجہ سےبات کی ہے کہ امریکہ 1.17ارب ڈالر کی قسط کی جلد از جلد ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف پر دبائو ڈالے کیونکہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط، جن میں یکم اگست 2022ء سے بجلی کے نرخوں میں 3.50 روپے فی یونٹ، پیٹرول پر 10 روپے اور ڈیزل پر 5 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) لگانا شامل ہےپوری کردی ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کو دوست ممالک سے 4 ارب ڈالر کی شارٹ فال امداد کی یقین دہانی بھی کروائی جاچکی ہے ۔

گزشتہ 3 مہینے میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 6500ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔ قارئین! گزشتہ سال ایف بی آر نے مجموعی طور پر 6125 ارب روپے کا ریونیو ہدف حاصل کیا تھا لیکن صرف 3 مہینے میں روپے کی قدر میں کمی سے ہمارے قرضوں کی ادائیگیوں میں 6500 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے ۔پنجاب میں ضمنی انتخابات، صوبائی حکومت کی تبدیلی اور فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد ملک میں انتشار کی صورتِ حال ہے جس سے وفاقی حکومت کی ترجیحات سیاسی محاذ آرائی کی جانب مبذول ہوگئی ہے اور پاکستان غیر یقینی سیاسی اور معاشی حالات سے دوچار ہے جو ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ۔ میری تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ملک میں معاشی استحکام اور میثاق معیشت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں تاکہ ملک کو سنگین معاشی بحران سے نکالا جاسکے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ۔