آگے آگے دیکھئے…

August 09, 2022

جیسے جیسے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ آگے بڑھ رہا ہے اور قانونی تقاضے پورے کئے جارہے ہیں۔ اس فیصلے کی زدمیں آنے والے حواس باختہ ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست اب قبائلی دشمنی کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض ’’رہنمائوں‘‘ کے بیانات چوری اور سینہ زوری بھی کے مترادف نظر آرہے ہیں۔ لسبیلہ حادثے میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران اور ایک جوان کی شہادت کو نازیبا الفاظ کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کرنا سفاکی اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسے صرف ورثاء کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ ایک مخصوص جماعت پاک فوج اور اس قابل فخر ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں منفی، گمراہ کن اور گھٹیا قسم کی مہم چند مہینوں سے چلا رہی ہے۔ اس ناپاک مہم کا مقصد اس اہم ترین ادارے کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ اب حکومت نے اس کے خلاف سخت ترین ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسے افراد اور ان کے پرستوں کی نشاندہی اور ان کیخلاف مثالی کارروائی کرنےکی ذمہ داری ایف آئی اے کے سپرد کردی ہے۔ ایف آئی اے نے اس معاملے میں ایک چار رکنی جے آئی ٹی مقرر کرکے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیا ہے۔ امیدکی جاتی ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اور ملوث افراد، خواہ کوئی بھی ہوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو اس معاملے کی خود نگرانی کرنی چاہئے بلکہ ایسے افراد کی فوری گرفتاری اور ان کو نشان عبرت بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔وقت کیساتھ ساتھ عمران خان کا امریکی سازش والا بیانیہ اپنے انجام کے قریب پہنچ چکا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی سے امریکی سفیر کی ملاقات اور 36گاڑیوں کے تحفہ کی وصولی نے نہ صرف امریکی سازش والے بیانیہ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے بلکہ اس منصوبہ بندی کو بے نقاب بھی کردیا ہے۔ امریکی امداد اور تعاون سے کے پی میں متعدد منصوبے چل رہے ہیں جن میں سے بعض پایۂ تکمیل کے قریب ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ امریکی حکومت اور اداروں کی امداد و تعاون سے سب سے زیادہ منصوبے کے پی میں جاری ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے اگر صوبے میں کارآمد منصوبوں کی تکمیل کیلئے امریکہ امداد و تعاون فراہم کر رہا ہے تو بلاشبہ یہ اس پس ماندہ صوبے کی ترقی اور بہتری کے لئے قابل قدر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب صوبہ کےپی میں پی ٹی آئی حکومت امریکہ سے مدد کی درخواست کرتی ہے اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا جاتا ہے ۔ ان ہی سے 36گاڑیوں کا تحفہ وصول کیا جاتا ہے تو پھر امریکی سازش کا ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا عمران خان اس قوم کو بیوقوف سمجھتے ہیں یا پھر بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی رہنما محترمہ شیریں مزاری جو نہایت تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی خاتون ہیں کے ٹوئٹ ’’کیا ہم غلام ہیں؟‘‘ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ گزشتہ دنوں کابل میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کو بھی مذموم سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اس سے قطع نظر کہ اس پروپیگنڈہ سے ملک کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ جس کی وضاحت کیلئے دفترخارجہ نے باقاعدہ بیان جاری کیا کہ اس کارروائی کے لئے استعمال ہونے والا ڈرون قطعی طور پر پاکستان سے نہیں اڑایا گیا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں کوئی ہوائی اسپیس امریکہ کے زیر استعمال نہیں ہےنہ ہی مذکورہ ڈرون کےپاکستان سےاڑنے کی افواہ میں کوئی صداقت ہے۔ آخر ایسی گمراہ کن اور لغو افواہیں پھیلانے کا مقصد کیا ہے۔معاملات آہستہ آہستہ واضح ہورہے اور اپنے انجام کی طرف بڑھتےجارہے ہیں۔ بس آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

بدحواسی کا عالم دیکھیں کہ یہ تک کہا گیا کہ جوان کے ساتھ نہیں وہ شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔ کبھی خود کو حق اور مخالفین کو باطل و بدی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیا یہ علماء کا فرض نہیں کہ ان لوگوں کو گمراہ کن بیانات سے روکنے کے لئے سامنے آئیں اور اپنا دینی کردار ادا کریں۔ دھونس اور دھمکیوں سے نہ تو فارن فنڈنگ کیس کے مقدمہ سے جان چھوٹ سکتی ہے نہ ہی توشہ خانہ ریفرنس سے جان چھوٹے گی۔ نہ ہی نااہلی ہونے والا معاملہ دھمکی آمیز بیانات سے ختم ہوسکتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں عمران خان کے بعض دوستوں کو جلدی ہے کہ ان کے خلاف بلاتاخیر فیصلے کئے جائیں۔ حکومتی ارکان بیانات اور جواب الجواب کو چھوڑ کر عملی اقدامات کریں۔ شہدائے لسبیلہ کے بارے میں بکواس کرنے ، اداروں اور انکے سربراہان کے بارے میں نازیبا بیانات اور الفاظ استعمال کرنے والوں کیخلاف فوری اور سخت قانونی اقدامات پوری قوم کا مطالبہ ہے۔ اس تمام صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے اور پھر14اگست جیسی اہم قومی تقریب کے موقع پر دھمکی آمیز بیانات اور اعلانات کا عندیہ دینے کو دیکھا جائے تو ان سے کیا ظاہر ہوتا ہے یہ سب سمجھتے ہیں۔ اس میں مصلحت اندیشی اور صرف نظر کرنا ناقابل معافی ہوگا۔ ذرائع کے مطابق ملک میں امن و امان کا استحکام معاشی بہتری کیلئے بنیاد ہے۔یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں انتشار پھیلا کر، اداروں کو کمزور اور بدنام کرنے اور ملک کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دی جائیں گی۔