75 سالہ پاکستان کا پورا سچ

August 16, 2022

پاکستان خیر سے 75 سال کا ہوگیا، ٹوٹ کر بھی قائم ہے۔ جتنا بچا ایٹمی ہے، لیکن بدترین سیاسی و معاشی بحران کی جکڑمیں۔ ارضی، فضائی اور بحری سرحدیں،الحمدللہ اطمینان بخش حد تک محفوظ ، لیکن داخلی سیاسی و معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر اور داخلی امن عامہ بدترین شکل میں۔ ملک میں ایک متفقہ پارلیمانی جمہوری اور وفاقی دستور ’’رائج‘‘ الوقت ہے، لیکن اس کی خلاف ورزیاں اور کتنےہی آرٹیکلز کا جمود پاکستان کی کڑوی سچائیوںمیں سے ایک بڑا سچ۔ ملک میں عدلیہ کا ایک ملک گیر اور سطح درسطح عدالتی نظام موجود ہے لیکن آئین کی کھلی خلاف ورزیوں نے اس کے متوازی دو قانونی نظام بھی قائم کردیا ہے۔ اس کے تحت گھڑے گئے طاقتور معاشرتی طبقات مراعات یافتہ، آئینی قانونی نظام کی پکڑسے محفوظ اور جو جتنا کمزور شہری اس پر اصل قانون کےاطلاق کا درجہ اتنا بلند، لیکن سکت برابر رشوت دینے اور سفارش کرانے سے وہ بھی تحفظ حاصل کرسکتےہیں۔ نچلی سطح پر گلی محلے، چاردیواری، دیہات و قصبات اور شہروں کے تحفظ اور یقینی امن عامہ کے لئے تھانہ کچہری کا نظام رائج ہے، لیکن بکے اور خریدے گئے۔

تھانوں اور کرپشن سے اَٹی کچہریوں کا ظالمانہ سسٹم آئینی و قانونی تقاضوں کے مقابل عوام الناس کے استحصال اور انہیں غیر محفوظ اور خوفزدہ رکھنے کا مسلسل اور بڑا ذریعہ ہے۔ تمام شہریوں کو گائوں، گوٹھ اور محلےو ٹائون سے لے کر سٹی و میٹروپولیٹن تک کی سطح پر محفوظ اور آرام دہ آمدورفت، روشن اورصاف ستھری گلیوں اور سایہ دار ہری بھری اور ہموار شاہرائوں جیسی انتہائی بنیادی سہولتوں کے لئے آئین پاکستان متعلقہ حکمرانوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے ساتھ ایک ملک گیر اور نتیجہ خیز اسٹریٹ اور سٹی لیول کے ترقیاتی نظام قائم کرنے کیلئے بلدیاتی انتخابات مقامی بلدیاتی اداروں کے قیام اور ادائیگی فرض میں سرگرمی کا پابند کرتا ہے لیکن ہماری منتخب حکومتیں اس سے سخت بیزار رہیں۔ مارشل لائی حکومتیں اقتدار میں آ کرمکمل تابع معاون سول سیٹ اپ سیاسی جماعت یا جماعتوں کے ساتھ انہی آئینی تقاضوں کے مطابق بلدیاتی نظام کو رائج کرکے عوام میں سرخرو ہوکر اپنے نجات دہندہ ہونے کی بجا طور پر دھاک بٹھاتی رہیں۔ جمہوریت کی بڑی بڑی دعویدار ہماری سب سیاسی جماعتیں، آمریتوں کی اس معاونت اور عوامی ضروریات کی فراہمی میں، مارشل لا حکومتوں کی ہمرکاب ہونے کا ریکارڈ رکھتی ہیں، لیکن جب خود اقتدار میں آتی ہیں تو اس سے گریز کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے انتخاب کرانے اور منتخب میئروں کو اختیارات بمطابق دینے میں ممکنہ حد تک مزاحمت کرتی ہیں۔ گزشتہ سال تک کراچی جیسے میٹروپولیٹن میں کوڑا کچرا سمیٹنے اور گھر گھر پانی کی تقسیم کے اختیار کی بھی صوبائی حکومتی ہوس پر چیف منسٹر بمقابلہ میئر کی کشمکش اور قانونی جنگ کے باوجود نتیجہ صفر رہا۔

ایسے ہی لاہور میں شہریوں کی مرضی و منشا و ضرورت اور انہیں اعتماد میں لئے بغیر محض 27کلومیٹر کی اورنج ٹرین پر 13صوبائی محکموں کے سالانہ ترقیاتی بجٹ سمیت چینی قرضوں سے 300ارب کا ’’ترقیاتی بجٹ‘‘ مسلط کرنا بھی آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی تھی جس سے لاہور کے کشادہ انفراسٹرکچر کے تشخص کو تباہ کیاگیا۔اب یہ ’’ترقیاتی‘‘ پروجیکٹ اور آخرالذکر کیس کی پشاور میں تقلید لوکل باڈی سسٹم کو غصب کرکے کرپشن کی سچی کہانیوں کابے نقاب ہوا مکمل سچ ہے۔

قیام پاکستان کی بنیاد شہدا کے لہو سے تو سینچی ہی گئی کہ اللہ کے حضور ہجرت عظیم کی اسی برکت سے آج بھی پاکستان ناخلف اور مجرم حکومتوں اور شدید بیمار سیاست کے پیدا کئے ڈیزاسٹرز کے باوجود ٹوٹ کر بھی بچا ہوا ایٹمی ملک اور دنیا و خطے کی سیاست میں اہم ترین اور تادم روشن و تابناک مستقبل کی نوید سناتا ہے۔تاہم اس کی اصل بنیاد اور اٹھان ’’علم‘‘ کو ہماری حکومتوں کی بدترین حکمرانی نے ٹھکانے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ واضح رہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام، تشکیل پاکستان کا GENESIS (نقطہ آغاز) ثابت ہوا۔ جدید ہندوستان میں مسلمانوں کی اسی تاریخ ساز درس گاہ میں وہ سیاسی علمی قافلہ تیار ہوا، جس نے 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کرکے سرسید کے برین چائلڈ ’’دو قومی نظریے‘‘ کی بنیاد پر مطالبہ پاکستان اٹھایا اور بھارت کو تقسیم کرا کے اپنا علیحدہ وطن بنانے میں کامیاب ہوا۔ سرسید کی کمال حکمت، اقبال کی دور بینی اور حضرت قائد اعظم کی ان ہونی کو ہونی (پارٹیشن آف انڈیا) میں تبدیل کر دینے والی بے مثال سیاسی و آئینی جدوجہد،تینوں کی بنیاد علم ہی تھا۔ اسی کے زور اور عمل سے تحریک پاکستان کا قافلہ سات عشروں تک رواں دواں رہا اور منزل پر پہنچا۔ لیکن قیام پاکستان کے عظیم سفر کے بعد ہم نئی قوم اور مملکت کے سفر تعمیر پاکستان کے مراحل میں علم سے دوری اختیار کرتے گئے۔

اتنے بڑے اور کامیاب تجربے کے بعد بھی فرنگی سے ملے ورثے کے نظام تعلیم ہی سے ہم نے کاروبار حکومت و ریاست کو چلانا شروع کیا۔ اس میں بھی انحطاط بڑھتا گیا۔نیا مطلوب نظام تعلیم نئی قوم و مملکت کی اصل اور فوری ضرورت کے طور جتنی اولین ترجیح پر تھا، حکومتوں کے ایجنڈے ، ارادوں میں اتنا ہی نظرانداز ہوا حالانکہ لیاقت علی خان کے مختصر دور میں نئے تقاضوں کے مطابق پہلی تعلیمی اصلاحات کی تشکیل کے کام کا آغاز بھی ہوا، لیکن فرنگی دو ر کی وراثتی دیسی سول اور عسکری بیور وکریسی اور سیاست کی طرف لپکا جاگیردار طبقہ گورننس کو اپنے کلچر میں رنگنے میں کامیاب ہوا۔ تازہ ذہنی کی پیدائش و پرورش کےشدت سے مطلوب سرکاری اہتمام گٹھ جوڑ اور سازشی طرز کی گورننس نے پہلے ہی عشرے میں اپنے پنجے گاڑلئے، نوبت نفاذ مارشل لا تک آگئی۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)