مغرب، روس اور ایردوان

August 17, 2022

جب سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا ہے مغربی ممالک نے امریکی دباؤ کے نتیجے میں فوری طور پر روس پر پابندیاں عائد کردی ہیں جب کہ ترکی نے نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود روس پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کے برعکس روس سے اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیتے ہوئےاس سے ایسی ایسی شرائط بھی منوالی ہیں جن کا اس سے قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ روس نے بالخصوص شام سے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیموں PKK/YPG کے خلاف آپریشن کرنے کی راہ ہموار کردی ہےجس پر ترکی جلد ہی علاقے میں ان دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کیلئے فوجی آپریشن شروع کرنے والا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں صدور کے درمیان رائے کا اتفاق پایا جاتا ہے۔

صدر پیوٹن پہلے ہی ترکی کے لیبیا اور آرمینیا میں ترک ڈرونز کی وجہ سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں سے مرعوب ہوچکے ہیں اور پھر مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد پابندیوں نےروس کو ترکی کے مزید قریب کردیا ہےحالانکہ شام ہی کی جنگ کے دوران ترکی کی جانب سے روس کے جنگی طیارے کو گرائے جانے کے بعد دونوں کے تعلقات بدترین طور پر متاثر ہوئے تھے اور روس نے کھل کر شامی انتظامیہ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ہر طرح کی فوجی امداد بہم پہنچاتے ہوئے ترکی کے لئے مشکلات کھڑی کردی تھیں لیکن ایردوان کے صبر و تحمل اور روس کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں نے صدر پیوٹن کورام کر ہی لیا ۔ موجودہ دور میں شاید ہی کوئی دو ممالک ایسے ہوں جن کے صدور کے درمیان ملاقاتوں کا لامتناہی سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ہو۔تاہم روس اور ترکی کی کے صدور ایک دوسرے کی سالگرہ پر بھی یکجا ہونے کا موقع ضائع نہیں ہونے دیتے ۔

صدر ایردوان نے یوکرین کی جنگ کے آغاز سے ہی ماسکو اور کیف کے درمیان ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہےکیوں کہ ترکی کے روس کے علاوہ یوکرین کے ساتھ بھی بڑے قریبی اور گہرے دوطرفہ تعلقات ہیں اور ترک کافی بڑی تعداد میں اپنے ڈرونز یوکرین کو فراہم بھی کرچکا ہے جس نے جنگ میں روسی ٹینکوں کو شدید نقصان پہنچایا اور یوکرین کے عوام کے دل جیت لئے۔ یوکرین کے عوام ترکی سے مزید ڈرونز حاصل کرنے کے لئے یورپی ممالک میں چندہ مہم شروع کئے ہوئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی ٹینکوں کو جتنا نقصان ترکی کے ان ڈرونز سے پہنچا شاید یوکرین اور اتحادی ممالک نےمل کر بھی اتنا نقصان روس کو نہ پہنچایا ہو ۔ روسی صدرنے اپنےٹینکوں کو ترکی کے ڈرونز کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کے بارے میں صدر ایردوان سے بڑے خوبصورت انداز میں شکایت بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ ترکی کے ساتھ مل کر ان ڈرونز کو مشترکہ طور پر تیار کرنے اور اس سلسلے میں سرمایہ کاری کرنے کی اپنی دبی ہوئی خواہش کا اظہار بھی کیا۔صدر ایردوان نے روس کے دورے سے واپسی پر طیارے میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ترکی کے تیار کردہ ڈرونز کی سپر قوتوں کی جانب سے مانگ میں ہونے والا اضافہ دراصل دنیا میں ترکی کی بڑھتی ہوئی قوت کا مظہر ہے۔

ایران میں ہونے والی ملاقات کے 18روز بعد ہی سوچی میں ہونے والی ساڑھے چار گھنٹے کی طویل ملاقات کے ایجنڈے کے مسائل پر وسیع مشاورت کی گئی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو طے شدہ اہداف کے مطابق اور متوازن بنیادوں پر بڑھانے پر مطابقت پائی گئی ، علاوہ ازیں معیشت اور توانائی کے شعبوں میں باہمی تعاون، نقل و حمل، تجارت، زراعت کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جب کہ صنعت، مالیات، سیاحت اور تعمیرات جیسے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے پر بھی یکساں سوچ پائی گئی۔

روس کے ساتھ اتنے گہرے اور قریبی تعلقات نے مغرب کو بھی ترکی کی جانب جھکنے پر مجبور کردیا ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ روس اور یوکرین کی 24 فروری کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے دنیا کو غلے کی ترسیل کا تعطل کا شکار ہو جانا تھا ،صدر ایردوان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں روس اور یوکرین سے غلے کی دنیا کو ترسیل کے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا ۔ اس جنگ کے بعد سے پہلی بار روس اور یوکرین کو ترکی کے راستے اس ہفتے اناج کی ترسیل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہےورنہ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں قحط کا خطرہ پیدا ہوچکا تھا۔ اسی دوران ترکی نے ترک اسٹریم پائپ لائن کےذریعے روس کی گیس یورپ تک پہنچانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے جب کہ ترکی خود اس پائپ لائن سے حاصل ہونے والی گیس کی ادائیگی روبل میں کرنے کی وجہ سے دنیا میں سب سے کم قیمت پر روس سے گیس حاصل کررہا ہے۔ صدر پیوٹن نے روسی گیس کو بلا تعطل یورپ تک پہنچانے پر صدر ایردوان کا شکریہ اداکیا ہے جب کہ مغربی ممالک کے تمام رہنماجن میں صدر بائیڈن اور فرانس کے صدرمیکرون تک شامل ہیں، نے صدر ایردوان کے غلے کی ترسیل کے معاہدے اور یورپ کو ترک اسٹریم پائپ لائن کے ذریعے روس کی قدرتی گیس کو بلاتعطل یورپ تک پہنچانے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے ۔

دونوں ممالک کے اسٹیٹ بینکوں کے سربراہان کی ملاقات میں روسی باشندوں کو اپنے ’’قومی ڈیبٹ کارڈ ‘‘ کی ادائیگی کے نظام میں بھی بڑی اہم پیش رفت دیکھی گئی ہے اور جلد ہی روس کے کارڈ’’میر‘‘ کو ترکی میں استعمال کرنے کی اجازت دیے جانے سے روسی سیاحوں کے ترکی میں شاپنگ اور ہوٹل کی ادائیگیاں کرنے کے تمام مسائل کو حل کرلیا جائے گا جس سے ترکی آنے والے روسی سیاحوں کی تعداد میں مزید کئی گنا اضافہ ہونے کی توقع ہے۔