جلسوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

August 18, 2022

22 کروڑ سانس لیتے بچوں، نوجوانوں، بزرگوں، مائوں بہنوں کو ضرورت ہے استحکام کی۔ آسان زندگی کی مگرمحاذ آرائی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ ایک معرکہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان ہے۔ سینکڑوںمناقشے سینہ بہ سینہ اور سوشل میڈیا پر بھی جاری ہیں۔ جو علاقائی بھی ہیں اورلسانی ، صوبائی اور فرقہ وارانہ بھی۔ اصل مسئلہ معیشت ہے۔ قومی بھی۔ صوبائی بھی۔ ضلعی اورہر گھرانے کی بھی۔ معیشت ہر سطح پر کسی حد تک مستحکم ہو تو یہ جھگڑے دَب جاتے ہیں۔ معاشی معاملات جب سنبھل نہ رہے ہوںاور زیادہ تر نوجوان روزگار کی تلاش میں ہوں۔ کوئی قائد انہیں راہ دکھانے والا نہ ہو تو یہ انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سلگتی چنگاریاںبھڑکتے شعلے بن جاتی ہیں۔ وہ تو شکریہ کیجئے کہ ان نازک لمحات میں ایسے لیڈر آجاتے ہیں جو بڑے بڑے جلسے کرکے ان شعلوں کو اپنے طور پر بھڑکنے نہیں دیتے۔ انہیں ایک دھارے میں لے کر چلتے ہیں۔

پاکستان کے کئی کروڑ شہریوں بالخصوص نوجوانوں (مرد و زن دونوں) میں اس وقت محرومی کی جو تڑپ ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں بالخصوص بلوچستان میں ہم بارش کی جو تباہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ دونوں اس امر کی دلالت ہیں کہ گزشتہ کم از کم تین دہائیاں جو جماعتیں بھی حکمراں رہی ہیں۔ انہوں نے ملک کو ان 30سال میں جس جس سہولت کی ضرورت تھی، وہ پوری نہیں کی۔ سیلاب طوفانی بارشوں سے بچنے کے لئےڈیم، حفاظتی بند، مضبوط پل، نکاسیٔ آب کے مستحکم منصوبے نہیں بنائے۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں ابھرتے سوالات کے جوابات نہیں دئیے۔ قوم کو ایک سمت نہیں دی۔ قدم قدم خلا تھے۔ NO MANS LANDS تھیں۔ نظریاتی فاصلے تھے۔ ان کی طرف نہیں بلکہ صرف اپنی اولادوں ۔ عزیز و اقارب اور کرپشن میں شریک احباب کی طرف توجہ دی۔ اب یہ خالی جگہیں چیلنج بن کر سامنے کھڑی ہوگئیں۔ پی ٹی آئی نے اس انارکی کو ایک دھارے میں ڈالنے کے لئے صرف جلسوں کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ باقی سب جماعتوں نے قومی اسمبلی کو عشرت کدہ بناکر اس میں پناہ ڈھونڈ لی ہے۔ حالانکہ یہ سنگین نزاکتوں والا تاریخی موڑ ان دونوں سیاسی حکمراں گروپوں سے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا تقاضا کررہا ہے۔

بحران گہرے سے گہرا اور پیچیدہ سے پیچیدہ ہورہا ہے۔ صدر مملکت کی مفاہمت کی دہائی ایک کرن ہے روشنی کی۔ مگر کیا پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم ان کی سنیں گی۔ کہنے کو وزیر اعظم نے بھی ملک گیر قومی ڈائیلاگ پر زور دیا ہے۔ کیا انہوں نے کسی کی ڈیوٹی لگائی ہے۔ وزیر اعظم جونیجو نے افغان معاہدے سے پہلے سب سیاسی رہنمائوں کی طرف اپنے وزیر بھیج کر انہیںمذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی شرکت کی تھی۔

پی ڈی ایم کو عدم تحفظ کا احساس ہے۔ مگر اس میں مقبول ہوتے عمران خان کے لئےنا اہلی کا راستہ ڈھونڈنا بحران کو اور زیادہ بڑھاوا دینے پر منتج ہوگا۔ اس سے معاشرے میں سکون اور استحکام نہیں ہوگا۔

دوسری طرف عمران خان کا صرف جلسوں پر جلسے کرنا بھی بحران کو اور زیادہ وسعتیں دے رہا ہے۔ جلسوں کا مزا اپنا ہے۔ بچے، خواتین حتیٰ کہ بزرگ بھی ان جلسوں کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔لیکن جلسوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ملک کی اصل حکمرانی پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب۔ افغانستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا۔ مقبوضہ کشمیر سے جڑا آزاد جموں و کشمیر ۔ دنیا کی بڑی چوٹیاں رکھنے والا گلگت بلتستان اس کے زیر انتظام ہیں۔ 22میں سے 16کروڑ عمران خان کے زیرنگیں ہیں۔ ان 16کروڑ نے ووٹ کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کےلئے اپنے آپ کو پی ٹی آئی کے سپرد کیا ہے۔ بلا شُبہ انہیں عوام میں بھی سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ لیکن انہیں نا اہل ہونے کے خطرے میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود تاریخ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی چاروں حکومتوں کو اکیسویں صدی کی مثالی حکمرانی دیں۔ اب تو 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس خود مختاری بھی بہت زیادہ ہے۔ یہاں ملک کی اکثریت بستی ہے۔ اس کی زندگی آسان بنائیں۔ عام آدمی کی عزت میں اضافہ کریں۔ 16کروڑ کو اگر اچھی مثالی حکمرانی نصیب ہوگی۔ لوگ سکون سے رہیں گے تو یہ بھی اسلام آباد میں محصور وفاقی حکومت پر بڑا دبائو ہوگا۔ دنیا بھی اخلاقی طو رپر عمران خان کا ساتھ دے گی۔ گزشتہ چار ماہ میں عمران خان نے کتنی بار آزاد جموں و کشمیر یا گلگت بلتستان کا دورہ کیا ہے یا ان کے وزرائے اعلیٰ سے کوئی مشاورت کی ہے۔ اب ساری سرگرمیاں اسلام آباد، لاہور تک محدود ہوگئی ہیں۔ پشاور جانا نہیں ہورہا ۔ خیبر پختونخوا میں حالات کشیدہ ہورہے ہیں۔ یہاں کے وزرائے اعلیٰ سے پی ٹی آئی کے سربراہ اور مرکزی رہنمائوں کی باہمی مشاورت بہت ضروری ہے۔ 9حلقوں میں انتخابی مہم سے بھی عوام سے رابطہ ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی کی طرف توجہ اپنی جگہ ناگزیر ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عمران ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں۔ دنیا ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ عدالتیں مشاہدہ کررہی ہیں۔ اداروں کی نظریں بھی ان پر لگی ہیں۔ سمندر پار پاکستانی بھی ان کی سمت نگراں ہیں۔ مائیں بہنیں بچے بہت سی امیدیں رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ جلسوں میںجوق در جوق آتے ہیں۔ بچوں نے عمران خان کے جملے از بر کرلئے ہیں۔ یہ مقبولیت ایک فخر کا احساس دیتی ہے۔ لیکن یہ ایک جامع لائحہ عمل کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ اچھی حکمرانی نہ ہونے سے ان جاںنثاروں کو بھی بہت پریشانیاں ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک مقبول ہوتا لیڈر ہی ان کو خوشحال کرے گا۔لیکن جہاں جہاںپی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں بھی بارشوں سے تباہی اس طرح ہوئی ہے وہاںبھی مہنگائی سندھ اور بلوچستان کی طرح ہی ہے۔ شعلہ بیانی اپنی جگہ منصفانہ حکمرانی ہر پاکستانی کی آرزو ہے۔ اس کے لئے اچھی انتظامی صلاحیتوںکا مظاہرہ درکار ہے۔ اچھا کیا ہے، پنجاب میں درد مند ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو ذمہ داری سونپی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اسکولوں میں فہم قرآن بطور نصاب پڑھایا جارہا ہے۔ ان چاروں حکومتوں میں ڈاکٹر عشرت حسین کی اصلاحات کو نافذ کریں۔ ریاست مدینہ کے تجربات ان علاقوں میں کریں۔ ان چاروں علاقوں کے وائس چانسلرز،علمائے کرام، دانشوروں،ریٹائرڈ جنرلوں، بریگیڈیئروں، پروفیسروں ، صنعتکاروں سے ملیں۔ ان کی بات غور سے سنیں۔چوروں،بد عنوانوں کے خلاف جہاد اپنی جگہ جاری رکھیں۔ لیکن ان چاروں حکومتوں کا وفاقی حکومت سے تعلق کار تورکھنا ہوگا۔ 16کروڑ بچوں۔ نوجوانوں بزرگوں کو روزگار، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، جان و مال کی حفاظت کے لئے اسلام آباد سے انتظامی رشتہ تو آئین اور قانون کا تقاضا ہے۔ 22کروڑ میں سے 16کروڑ کی حالت بہتر ہوتی نظر آئی تو وفاق پر کتنا دبائو بڑھے گا۔ پاکستانی مجموعی طور پر کتنے خوش ہوں گے۔