فاسٹ باؤلر کے نو بال

August 26, 2022

کرکٹ کو عام طور پر (gentleman's game)یا شریف لوگوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن اس کھیل میں فاسٹ بائولر وہ واحد کھلاڑی ہے جو اپنے مخالف بیٹسمین کو خوفزدہ کرنے اور اس کے جسم کو نشانہ بنانے کے لئے بائونسر اور نو بالز کے ذریعے فائو ل پلےبھی کرتا ہے۔ بیٹسمین اس کی جتنی پٹائی کرتا ہے فاسٹ بائولر غصّے میں اتنے ہی زیادہ بائونسرز اور نو بالز کرواتا ہے اور بعض اوقات ایمپائر سے اس کی توتکار بھی ہو جاتی ہے،جو بڑھ جائے تو اسے کھیل سے آئوٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس کھلاڑی میں غصّہ اور جارحیت نہ ہو وہ فاسٹ بالر نہیں بن سکتا اور جس میں تحمّل اور بردباری نہ ہو وہ ایک اچھا بیٹسمین ثابت نہیں ہوسکتا۔ سیاست کےلیکن اپنے اصول ہوتے ہیں۔ یہاں قول و فعل کا تضاد زیادہ دیر تک نہیں چلتا اور جلد یا بدیر لوگ اس سیاستدان سے متنفّر ہو جاتے ہیں جس کی تضاد بیانی اور بے اصولی حد سے زیادہ بڑھ جائے اور جس کا واحد مقصد ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار حاصل کرنا ہو ۔ عمران خان کا شمار بھی ایک ایسے ہی فاسٹ بائولر نما سیاست دان کے طور پر ہوتا ہے ، جس میں ایک زیرک سیاستدان کی نسبت، جارحیت پسند فاسٹ بائولر کا غصّہ اور انتقام زیادہ نمایاں ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جار ہا ہے، اس کوشش میں قوم خوفناک حد تک تقسیم اور عدم برداشت کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ انتشار و انا رکی کی یہ کیفیت اور اداروں کے ساتھ مسلسل ٹکرائو ہمیں ایک ایسی بند گلی میں لے جا رہا ہے جہاں سےواپسی آسان نہیں ہوگی۔ اس ساری صورتِ حال کے اصل ذمہ دار تو وہ حلقے ہیں،جو نئے نئے بُت تراشتے اور انہیں توڑتے رہتے ہیں۔ نہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ بندے میں اہلیت بھی ہے یا نہیں یا اس کا ماضی کاریکارڈ کیسا ہے۔ عمران خان نے 2014سے تا حال صرف ایک بات ثابت کی ہے کہ بطورِ اپوزیشن لیڈر اور حکمران کے انہوں نے ہمیشہ دروغ اور بہتان تراشی کی سیاست کی ہے۔ وہ نہ تو خود حکمرانی کی صلاحیتیں رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو حکومت کرنے کا موقع دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ تضاد بیانی کا یہ عالم ہے کہ اپنے بدترین دورِ حکومت کو جس میں پاکستان ، معاشی ، سیاسی اور سماجی لحاظ سے تباہ ہوگیا اسے پاکستان کی تاریخ کا بہترین دورقرار دیتے ہیں۔ میں نے ان کے جھوٹ کے بارے میں ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ایک دن وہ بھی آسکتا ہے جب وہ یہ دعویٰ بھی کرسکتے ہیں کہ RTSانہیں جتوانے کے لئے نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت سے محروم کرنے کے لئے بٹھایا گیا تھا۔ اور یہی بات انہوں نے برادرم حامد میر کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں کہہ بھی دی ہے ۔ ان کے دور میں اپوزیشن کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے کہ کوئی قابلِ ذکر اپوزیشن لیڈر ایسا نہیں تھا جسے جیل کی ہوا نہ کھانا پڑی ہو۔ لیکن ابھی صرف ان کے چیف آف اسٹاف شہباز گِل کو گرفتار کیا گیا ہے اور وہ بھی فوج میں بغاوت پھیلانے کے خوفناک جرم میں۔ تو خان صاحب اور ان کی پارٹی نے تشدد کا واویلا مچانا شروع کردیا اور عدالتوں کو بھی دبائو میں لانے کی خاطر نام لے کر خاتون جج کو کھلے عام دھمکیاں دیں۔ وہ ایک ایسے فاشسٹ شخص کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں، جو اپنے مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے گالم گلوچ اور دھمکیوں کا جو کلچر متعارف کروایا ہے، اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ انتظامیہ ، عدلیہ ، الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں کی غیر جانبداری برداشت ہی نہیں کر سکتے کیوں کہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائرز کا کریڈٹ لینے والے عمران خان کو زندگی کے کسی اور شعبے میں غیر جانبدار یا نیوٹرل ہونا گوارا نہیں کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ انسان کو تو ہمیشہ جانبدار ہونا چاہئے حق کے ساتھ ہونا چاہئے یعنی میرے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ صرف میں حق پر ہوں۔ اسی گھمنڈمیں ان کی کسی سے زیادہ دیر تک نہ بنی ۔ جو کوئی ان کے قریب آیا، وہ اُن سے ہمیشہ کے لئے دور ہو گیا۔ اس میں چاہے ان کی اہلیہ ہوں ، پرانے دوست ہوں ، سیاسی کارکن ہوں، قریبی رشتے دار ہوں یا وہ لوگ جو انہیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر نہ صرف اقتدار میں لائے بلکہ ان کے لئے سارے زمانے میں بدنام ہوتے رہے۔ صرف یہی نہیں ان کے سیاسی پھوہڑ پن کی وجہ سے پاکستان اپنے قریبی دوست ممالک سے بھی دور ہوگیا۔ دروغ گوئی کا یہ عالم ہے کہ وہ حکومت میں ہونے والی ہر خرابی کی ذمہ داری اب ان اداروں پر ڈال کر خود کو معصوم و مظلوم ثابت کر رہے ہیں جن کی وہ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ میں ایک با اختیار وزیرِ اعظم ہوں اور ہر قول و فعل کا ذمہ دار ہوں۔ اب وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے پاس توکوئی اختیار تھا ہی نہیں۔جناب! آپ پھر کیوں حکومت سے چمٹے رہے یا اب حکومت لینے کے لئے کیوں ہر غیر قانونی اور غیر آئینی راستہ اختیار کر رہے ہیں اور خو د کو ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں، کیا یہی وہ ریاستِ مدینہ ہے جو آپ بنانا چاہتے ہیں؟