ترقی پذیر ملکوں سے ماہرین کی ہجرتیں

September 23, 2022

نوبل انعام یافتہ برطانوی سائنس دان سر اینڈریو ہکلے کا نام تو ہم میں سے بہتوں نے سنا ہوگا وہ رائل سوسائٹی لندن کے صدر بھی رہے۔ حال ہی میں ان کا ایک لیکچر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ عنوان تھا ’’سائنس اور سیاست‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کی تحقیقات میں جو غیر معمولی وسائل درکار ہوتے ہیں وہ اس وقت صرف ترقی یافتہ ملکوں کو حاصل ہیں اور یہ سب کچھ صرف مغربی یورپ کے ممالک میں اتحادی پروگرام کے ذریعہ ممکن ہوا ہے نہ کہ ذاتی وسائل کے ذریعے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ دردناک صورتحال غیر ترقی یافتہ ممالک کی ہے وہ سائنسی تحقیقات میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک بہترین صلاحیتوں کے مالک دماغوں کو انہی غیر ترقی یافتہ ممالک سے لے رہے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن نوجوانوں کے سرپرستوں نے مغربی قوموں سے لڑائی کی تھی کہ وہ ان کے ملکوں کو لوٹ رہے ہیں اور بے پناہ قربانیوں کے بعد ان کے قبضہ سے آزادی حاصل کی تھی اب انہی کی بہترین اولاد خود اپنی مرضی سے بھاگ بھاگ کر ان ملکوں میں جا رہی ہے تا کہ وہ ان کی صلاحیتوں کو لوٹیں اور ان کے ذریعہ اپنی عالمی قیادت کو برقرار رکھیں۔ اس لوٹ مار سے بچنے کی واحد صورت وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں برطانیہ نے اختیار کیا ہے یعنی ایشیا میں مختلف ممالک کے مشترکہ وسائل سے اعلیٰ ترین سائنسی تحقیق کا آغاز کرنا تا کہ ان ملکوں کے اعلیٰ سائنسی ذہنوں کو خود اپنے ملک میں کام کے وہی مواقع مل سکیں جس کے لئے وہ مغربی ملکوں میں جاتے ہیں یا مستقل ہجرت کر جاتے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ممالک یعنی تیسری دنیا میں کوئی دو ملک بھی ایسے نہیں جو حقیقی معنوں میں باہمی اتحاد و اشتراک کے ذریعہ کام کرنے کیلئے تیار ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تخریب کے عنوان پر لوگوں کو متحد کرنا سب سے زیادہ آسان کام ہے اور تعمیر کے عنوان پر متحد کرنا سب سے مشکل کام۔ کیسی عجیب تھی وہ آزادی جو خون کے بہائو کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور کیسی عجیب ہے وہ غلامی جو صلاحیتوں کے بہائو کے ذریعے دوبارہ ہماری طرف لوٹ آئی ہے، آپ اس تلخ حقیقت سے یقیناً واقف ہوں گے کہ ترقی پذیر ملکوں سے ہر سال پچاس ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور سائنس دان اپنے ملک کو خیرباد کہہ کر مغربی ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2020 کے عشروں میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ مبصرین نے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف ہجرت کی یوں ان کی غریب قوموں کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف یہ مغربی ممالک ان ماہرین کے آنے سے 15ارب ڈالرز کی سالانہ بچت کرتے ہیں صرف امریکہ میں بسنے اور کام کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تعداد 72% ہے۔ ناسا جیسے اہم ادارے میں صرف بھارتی 42% افراد کام کرتے ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے امور خارجہ کے شعبہ کے جاری کردہ ایک مطالعہ کے مطابق 2020 سے2021میں تیسری دنیا کے تربیت یافتہ افراد کی قوت کی امریکہ کو منتقلی کی بناپر امریکہ کو دو ارب ڈالر کا فائدہ پہنچا تھا جسے ’’قابل قدر وسائل کا رضاکارانہ تحفہ‘‘ قرار دیاگیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے، اس رپورٹ میں ٹھوس اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2018سے 2019 تک کے دوران امداد دینے والے تین بڑے ملکوں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو 46ارب ڈالر کی امداد فراہم کی اور دوسری طرف غریب قوموں کے ماہرین کی آمد سے ان تینوں ملکوں کو 62ارب ڈالر کا فائدہ پہنچا۔ ابھی میں نے کہا ہے کہ 2005 اور 2020کے عشروں میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کی۔ سائنس دانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور بے شمار دیگر شعبوں کے ماہرین کی محض یہی تعداد ان ماہرین کی تعداد سے کم از کم ایک ہزار فیصد زیادہ ہے جنہوں نے مغربی دنیا کی کایا پلٹ دی تھی۔ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے بہت سے ملکوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہر سال جتنے ماہرین تیار ہوتے ہیں ان کا 20سے 70 فیصد حصہ مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کرجاتا ہے یوں یہ ملک حقیقی دور میں داخل ہونے کیلئے لازمی سائنس اور فنی مہارت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پاکستان تیسری دنیا کے ان بدقسمت ملکوں میں شامل ہے جس کے اپنے تربیت یافتہ ماہرین کا ایک بڑا حصہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اس سے ملک اور قوم کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا سائنسی انداز میں کبھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ البتہ پاکستان کے وزرائے اعظم اپنی ہر دوسری پریس کانفرنس میں یہ ضرور بتاتے رہتے ہیں کہ غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے کتنے کروڑ روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ مغربی حکومتیں ماہرین کے اس بہائو پر دل ہی دل میں خوش ہوتی ہیں لیکن جب ان سے اس کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیاجاتا ہے تو وہ اسے حیلے بہانوں سے ٹال دیتی ہیں۔ یہ نقصان عارضی ہو تو شاید غریب قومیں اسے برداشت کر سکتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے اثرات بے انتہا دوررس ہیں وجہ یہ ہے کہ ماہرین کی ہجرت پسماندہ ملکوں میں جنگ و جدل تعلیمی پس ماندگی کو برقرار رکھنے کا وسیلہ بن رہی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں نے اس سلسلے میں غریب قوموں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے وہ یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم نے انہیں آنے پر مجبور تو نہیں کیا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان ملکوں کے آپس کے جھگڑے ختم ہوں تو یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوں اور پھر تیسری دنیا کے حکمران اپنے اپنے ممالک میں ان ماہرین کیلئے حالات کو سازگار بنائیں تو ہجرت خود بخود ختم ہو جائے گی۔