اکیڈمی اور سیاست

September 26, 2022

تعلیم کا تعلق غور و فکر سے ہے۔ شعور کے ابتدائی مرحلے میں شکوک و شبہات کا ہجوم انسان کے سر پر خوف کا سایہ بن کر منڈلاتا رہتا تھا۔ اس سے نجات کی تدبیر علم کی بنیاد بنی۔ یقیناً حیات کے ابتدائی ادوار کے انسانوں نے لمبا عرصہ ذات اور کائنات کے درمیان ربط قائم کرنے اور زندگی کے بہتر ذرائع تلاشنے میں گزارا ہو گا تب کچھ بنیادی اصول مرتب ہوئے ہوں گے۔ صدیوں کے سفر کے بعد جب خاندان سے محلوں، گائوں اور قصبوں کا قیام عمل میں آیا ہو گا تو تربیت کے سادہ مراکز وجود میں آئے ہوں گے۔

ازل سے لے کر آج تک انسان مسلسل ترقی کے سفر پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ابھی نہ اس کی ذات کی تکمیل ہو سکی ہے اور نہ وہ کائنات کا مکمل اور حقیقی علم حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اس لئے شعوری و لاشعوری طور پر اس کا ہر لمحہ جستجو میں ہے لیکن یہ بات عیاں ہے کہ اکیسویں صدی کے لمبے سفر کے بعد بھی انسانی زندگی، کائنات اور الٰہیات کے حوالے سے رائج نظریات، تصورات اور نظاموں کی بنیاد آج بھی قبل مسیح کے ایتھنز کے باغات، پہاڑوں اور اکیڈمیوں میں ہونے والے مباحث، لیکچرز اور اقوال ہیں۔

افلاطون کے دور کا یونان تاریخِ انسانی کا سنہری زمانہ تھا، جس میں تعلیم، ادب، سیاست، حکومت، معاشرت، مذہب، عدل، فلسفے، منطق، ثقافت اور دیگر موضوعات پر فکر کے قلم سے جو لفظ تحریر ہوئے وہ ہمیشہ کے لئے معتبر قرار پائے۔ عظیم دانشور سقراط کے سوال و جواب سے جڑی دانش کی کہانیاں اس کےلائق فائق شاگرد افلاطون کی وساطت سے محفوظ ہوئیں اور دنیا کی میراث بنیں۔ سقراط نے اپنے شاگردوں کو علم، تفکر، گفتگو، سوچ اور دانش کے جس ذائقے سے روشناس کرا دیا تھا وہ بڑے معرکوں کا متحمل تھا۔ افلاطون نے باہمی مباحث کے ذریعے طالبانِ دانش کی تربیت کے لئے (387قبل مسیح) ایک اکیڈمی قائم کی جس کے دروازے مرد و عورت دونوں کے لئے کشادہ تھے۔ اس اکیڈمی سے مستفید ہونے والے سینکڑوں طلباء فلسفی، تاریخ دان، سماجی ماہرین، سیاست دان اور منصف بنے۔

ان میں سب سے نمایاں نام ارسطو کا ہے جو بیس سال کے طویل عرصے تک زیرِ تعلیم رہا۔ افلاطون نے اس میں ایک کتب خانہ بھی بنایا جس میں اس دور کی اہم کتب شامل تھیں۔ اُس وقت یہ اکیڈمی ایتھنز شہر سے باہر قائم کی گئی تھی جہاں زیتون کے باغ تھے۔ اب بھی ایتھنز میں زیتون کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یونان میں زیتون کو مقدس درخت سمجھا جاتا تھا۔ وہاں کی زمین اور آب و ہوا میں یہ خوب پھلتا پھولتا ہے۔ اس کے پھل اور تیل کی افادیت بھی کمال ہے۔ زیتون کے درختوں میں گھری اس اکیڈمی کے نام کے حوالے سے بھی مختلف روایتیں مشہور ہیں۔

اکیڈمس ایک افسانوی کردار تھا جو بہت بہادر اور جنگجو تھا۔ اُس کے بارے میں مختلف کہانیاں مشہور تھیں جو نسل در نسل چلتی رہتی تھیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ اُس نے سپارٹا کی طرف سے طاقتور حملوں میں ایتھنز کا دفاع کر کے یہاں کے لوگوں کو موت اور غلامی سے بچایا تھا ،اس لئے ایتھنز کے لوگ اُسے بہت چاہتے تھے۔ افلاطون ایک بااثر خاندان کا چشم و چراغ تھا۔

غالباً یہ اکیڈمی اسے جائیداد میں حصہ ملنے کے بعد قائم کی گئی جس کا مقصد مکالمے اور لیکچرز کے ذریعے مختلف فلسفیانہ گتھیاں سلجھانا تھا اس لئے نہ یہاں کوئی نصاب تھا اور نہ فیس اور نہ خاص و عام کی پابندی مگر یہاں آنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق شرفاء کے اعلیٰ طبقے سے ہوتا تھا جنہیں فراغت بھی نصیب تھی اور جو مکالمے میں حصہ لینے اور سیکھنے کے رسیا بھی ہوتے تھے۔ افلاطونی دور میں سیاست اور حکومت کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ افلاطون، شخصیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے دانش کو جبلت اور شجاعت سے اعلیٰ تسلیم کرتا تھا اور اسے ہی حقِ حکمرانی کا اہل سمجھتا تھا۔ اس اکیڈمی میں بھی سیاست کے مختلف نظریات زیرِ بحث لائے جاتے تھے اور سیاست دانوں کی باقاعدہ شخصیت سازی اور تربیت کی جاتی تھی۔ تقریباً تین صدیاں یہ اکیڈمی مطلق سچائی کی تلاش میں سرگرداں علم کے متوالوں کے شکوک و شبہات رفع کرنے کے لئے کوشاں رہی۔ پھر جنگ نے اسے ایسا تباہ کیا کہ دوبارہ قائم نہ ہو سکی مگر افلاطون نے جو روایت قائم کر دی وہ باقی رہی۔ نئی اکیڈمیاں وجود میں آتی رہیں اور جب تک دنیا باقی ہے آتی رہیں گی۔ افلاطون کی وساطت سے لفظ اکیڈمی وسیع تر معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

گزشتہ بیس پچیس سال سے پاکستان میں اکیڈمی کلچر نے بہت ترقی کی۔ وجہ انگریزی میڈیم اسکول کے مشکل ترین نصاب تھے ۔ پھرسرکاری اسکولوں کے نصاب بدلے تو طلباء اور والدین کے لئے نیا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ نہ صرف نویں دسویں کے امتحان میں بچوں کے ناکام ہونے کی شرح بڑھنے لگی بلکہ یہ ناکامی انہیں اسکول اور تعلیم سے دور لے جانے لگی۔ اس کا توڑ کرتے ہوئے وزارتِ تعلیم پنجاب نے انصاف اکیڈمی کو متعارف کروا کے والدین اور بچوں کی مشکلات کا ازالہ کر دیا ہے۔ یہ امریکہ کی Khan اکیڈمی سے متاثر ہو کر قائم کی گئی ہے جس کی افادیت سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ پنجاب میں متعارف کرائی جانے والی اس آن لائن اکیڈمی تک رسائی کے لئے کوئی فیس نہیں۔ یہاں ہر مضمون کے متعلق سینکڑوں لیکچر موجود ہیں جنہیں طالب علم بار بار سُن کر اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ دوسرے وہ اپنے والدین کی نظروں کے سامنے رہ کر اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ مرکوز کر سکتا ہے۔ اُمید ہے آئندہ امتحانات میں اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔

خدا کرے افلاطون کی اکیڈمی کی طرح پاکستان میں بھی سیاست کے حوالے سے لوگوں کی تربیت کرنے کے لئے کوئی اکیڈمی جلد وجود میں آئے تا کہ گالی گلوچ، بدتمیزی، فتووں اور الزامات سے نجات پا کر اخلاقی قدروں کا حامل صحت مند ماحول پروان چڑھایا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)