پاک امریکہ وزرائے خارجہ ملاقات

September 28, 2022

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سٹریٹیجک معاملات میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ہمیشہ شدید اختلافات رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ان کے کم ہونے کا کوئی امکان نہیں جس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی بے جا پشت پناہی ہے۔ امریکہ نے کئی نازک موقعوں پر پاکستان سے بے وفائی کی اور اسے نقصان پہنچایا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور برآمدی منڈی ہے۔ دونوں ملکوں میں دو طرفہ تجارت 9 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ تقریباً 180 امریکی کمپنیوں میں سوا لاکھ سے زائد پاکستانی براہ راست ملازم ہیں اور دس لاکھ بالواسطہ ملازمت کررہے ہیں۔ امریکہ کا سب سے بڑا حریف چین، پاکستان کا آہنی دوست ہے۔ اس کے باوجود امریکی وزیر خارجہ کے مشیر کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ امریکہ سے تعلقات کے لئے پاکستان چین کو چھوڑ دے۔ پاک امریکہ تعلقات کے ان منفی اور مثبت پہلوؤں کےپس منظر میں گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی ملاقات بڑی اہمیت کی حامل رہی جس میں باہمی دلچسپی کے دوسرے امور کے علاوہ پاکستان میں سیلاب کی صورتحال، اقتصادی تعاون بڑھانے اور علاقائی استحکام پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ باہمی ملاقات کے علاوہ پاک امریکہ تعلقات کی 75 ویں سالگرہ پر ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے پاک امریکہ اقتصادی تعاون بڑھانے کے وسیع امکانات کا ذکر کیا اورفوڈ سیکورٹی کے نام پرسیلاب زدگان کے لئے 2 ارب 40کروڑ روپے کی اضافی امداد کا اعلان کیا۔ بلاول بھٹو نے اپنی گفتگو میں بین الاقوامی برادری کو یاد دلایا کہ پاکستان میں تباہ کن بارشیں اور سیلاب پاکستانیوں کی کسی غلطی کا نہیں بلکہ امیر ممالک کے موسمیاتی بگاڑ کا نتیجہ ہے اس لئے ان کی ذمہ داری ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد، امداد نہیں بلکہ انصاف سمجھ کر کریں۔ اس سے قبل امریکہ متاثرین کے لئے 56.5 ملین ڈالر دے چکا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت والے ملک کی طرف سے بہت معمولی امداد ہے تاہم بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی پرزور اپیل پر پریشان حال متاثرین کی مدد کے لئے سرگرم ہے اور امید ہے کہ ان کے دکھوں کا بڑی حد تک مداوا ہوسکے گا۔ امریکہ اور دولت مند مغربی ممالک کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان کو طوفانی بارشوں اور منہ زور سیلابی ریلوں سے 30 ارب ڈالرکا نقصان ہوچکا ہے پلاننگ کمیشن کے تازہ ترین تخمینے کے مطابق سب سے زیادہ نقصان بلوچستان ، سندھ ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ہوا۔ ایک تہائی ملک بارشیں تھمتے اور سیلابی ریلے گزر جانے کے باوجود پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس تباہی کے نتیجے میں غربت میں 5 فیصد اضافے اور مزید ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے کا خدشہ ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق متاثرین کی بحالی اور تعمیراتی کاموں میں دوسے دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں 18 سے 20 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ زرعی پیداوار جس کے لئے 3.9 فیصد اضافے کی حد مقرر کی گئی تھی ، منفی 2.1 فیصد تک گر سکتی ہے۔ اجناس کی برآمد میں 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ سندھ میں سیلاب کا 75 فیصد پانی نکالنے میں ڈیڑھ مہینہ لگ جائے گا۔ اس کے بعد ہی گندم کی فصل بیجی جاسکے گی۔ نقصانات کے یہ ابتدائی تخمینے ہیں۔ مکمل سروے کے بعد جو تصویر سامنے آئے گی وہ اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بین الاقوامی برادری کے علاوہ ملک کے رفاہی اداروں اور مخیر شخصیات کو بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہوگا۔ ایسے میں امریکہ کا اثرورسوخ بہت مدد گار ثابت ہوسکتا ہے جس کے لئے اسے زبانی ہمدردی کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوںگے ۔