ہم کو عبث بدنام کیا!

October 03, 2022

آڈیو لیکس کا موسم شروع ہو چکا ہے ۔ ایوان وزیر اعظم کے اندر منعقدہ اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو کی آڈیوز سامنے آ چکی ہیں ، جن میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان کی ساری باتین سنی جا سکتی ہیں ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی آڈیوز بھی افشا ہو چکی ہیں ، جن کی وجہ سے ان کی حکومت کو مبینہ سازش کے ذریعہ ختم کرنے کا بیانیہ زمین بوس ہو چکا ہے ۔

عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مزید آڈیو لیکس ہو سکتی ہیں ۔ وہ تو اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ ان کی وڈیوز بھی لیک ہو سکتی ہیں ۔ لگتا ہے کہ ’’ پالیٹکس آف لیکس ‘‘ شروع ہو گئی ہے ، جس کے ذریعہ سیاست ہی سیاست دانوں کے ہاتھ میں نہیں رہے گی ۔ اب پاکستان کی سیاست کسی اور رخ پر جائے گی۔

یہ آڈیو اور وڈیو لیکس پاکستان میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی ہیں ۔ خفیہ طور پر ریکارڈنگ کرنے (بگنگ ) کے جدید آلات نہ ہونے کے باوجود ماضی میں بھی بگنگ ہوتی تھی اور اسے سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا یا اسے سیاست کا رخ اچانک موڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ میرا چونکہ سیاست سے تعلق رہا ہے ۔

ایوب خان کے دور سے ہی ہمیں اپنی اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگ کے بارے میں بتا کر سیاست سے کنارہ کش ہونے کیلئے دبائو ڈالا جاتا تھا ۔ یہ خفیہ ریکارڈنگ واقعی ہوتی تھی لیکن انہیں اس طرح پبلک نہیں کیا جاتا تھا ، جس طرح آج ہوتی ہیں ۔ دنیا کے دیگرملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے ۔ لیکن ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں اس کے خلاف قانون سازی کیساتھ ساتھ ایسی بگنگ کو روکنے کیلئے اقدامات بھی کئے گئے ہیں ۔

پاکستان میں پہلی مشہور آڈیو لیک احتساب کمیشن کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمٰن اور جسٹس (ر) قیوم کے درمیان ہونے والی گفتگو سے متعلق تھی ، جس میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک کیس میں سزا دینے اور نااہل کرنے کیلئے حکمت عملی طے کی گئی تھی ۔

یہ سزا ہو گئی لیکن جب پاکستان کے سیاسی حالات تبدیل ہوئے اور مقتدر حلقوں کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں لانا لازمی ہے تو یہ آڈیو لیک سامنے آئی لیکن اس آڈیو لیک کے بارے میں خبر پاکستانی میڈیا میں بریک نہیں ہوئی بلکہ شاید گارجین کے نمائندے سے بریک کرائی گئی ۔ کیونکہ اس وقت اگر کوئی پاکستانی صحافی یہ خبر بریک کرتا تو پہلے اس صحافی کا اپنا ادارہ یہ خبر شائع نہ کرتا اور اگر شائع بھی ہوتی تو اس کو ’’ ڈائون پلے ‘‘ کیا جاتا ۔

پاکستانی اخبارات اپنے ملک کے حوالے سے بیرونی ممالک میں شائع ہونے والی خبروں کو شہ سرخیوں کے ساتھ چھاپتے تھے کیونکہ خبر کی صداقت کو ثابت کرنے کا بار ان پر نہیںآتا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا دینے اور نااہل کرنے کا منصوبہ بھی میاں نواز شریف کا اپنا نہیں ہو گا ۔ یہ انہیں اقتدار میں لانے والوں کا منصوبہ ہوگا ۔ اس وقت بھی آڈیو لیک نہیں ہوئی کیونکہ الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا ۔ صرف اس آڈیو کا ٹرانسپکرٹ شائع ہوا۔

خبر شائع ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ ’’ ریورس ‘‘ ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوبارہ وزیر اعظم بننے کا قانونی راستہ صاف ہو گیا ۔ پھر جب محترمہ کو دوسری مرتبہ اقتدار سے ہٹانے کا مرحلہ آیا تو واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس وقت کے صدر سردار فاروق احمد خان لغاری کو ایک ایسی وڈیو دکھائی گئی ، جس سے وہ نہ صرف محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے مخالف ہو گئے بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی سے اپنا دیرینہ رشتہ توڑتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کے تحت محترمہ کی حکومت بھی برطرف کر دی ۔ آڈیو اور وڈیو لیکس کا کمال ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سیاست کا رخ بدل دیا جاتا ہے ۔

اب چونکہ نئی ٹیکنالوجی آگئی ہے ۔ خفیہ اداروں کے ساتھ ’’ ہیکرز ‘‘ کا نیا کردار بھی بگنگ میں شامل ہو چکا ہے ۔ ایوان وزیر اعظم کی حالیہ آڈیو لیکس کے حوالے سے معاملہ قومی سلامتی کونسل میں بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور اسکی اعلیٰ سطح پر تحقیقات بھی ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف عمران خان بھی ان آڈیو لیکس کے معاملے پر عدالت میں چلے گئے ہیں ۔

کہا جا رہا ہے کہ ہیکرز نے ان آڈیو ریکارڈنگز کو پبلک نہ کرنے کے لیے بڑی رقم طلب کی ہے ۔ ان کے پاس مزید آڈیو ریکارڈنگز بھی ہیں۔ ہیکرز نے اپنی ویب سائٹ کے ذریعہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے حساس اداروں کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی دستیاب ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہیکرز پیسہ وصول کرکے کہاں تک چھپیں گے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ پیسہ لینے کے بعد بھی بلیک میل نہیں کریں گے ؟ یہ معاملہ اگر پیسے کا ہوتا تو پھر صرف عمران مخالف سیاست دانوں کی نہیں ، خود عمران خان کی آڈیو اور وڈیو لیکس بھی ہو سکتی ہیں ، جو منظر عام پر آ رہی ہیں ۔

عمران خان وہ سیاست دان ہیں ، جو اپنی سیاست کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پروپیگنڈا کو لوگوں کے ’’ مائنڈ کنٹرول ‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں ہے کہ ان کی ٹیکنالوجیکل پاور کہیں اور سے کنٹرول ہو سکتی ہے ۔

عمران خان نے اب تک اپنی زندگی میں صرف سازگار فضا دیکھی ہے اور اپنے آپ کو ’’ سپر مین ‘‘ بنانے کے لیے ہر طرف سے غیبی مدد بھی حاصل کی ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جو کچھ میاں نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف کیا تھا ، وہی فاتحانہ چال ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ۔ بہتر یہی ہے کہ سیاست دان دائو پیچ کی بجائے جمہوری سیاست کریں ۔ داؤ پیچ سے معاملات ان کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں ، جو بڑا داؤ پیچ لگا سکتے ہیں ۔ آڈیو لیکس سے سیاست دانوں کا چہرہ مزید مسخ ہو رہا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا اچانک کوئی نیا رخ متعین ہونے والا ہے ۔ بقول میر تقی میر

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا