معراج ِ انسانیت کا عشرہ

October 07, 2022

تخلیق کا اعجاز اَزل سے ارتقا کی راہوں پر رواں دواں رہا ہے ۔ اگرچہ حضرت غالبؔ نے قطرے سے گہر ہونے تک کے مر احل میں ارتقا کے کرب کا ادراک کر لیا تھا مگریہ نہیں سوچا تھا کہ قطرہ گہر کی صورت میں تشکیل پاکر کس قدر بیش قیمت ہوجاتا ہے ۔غالبؔ نے اس حقیقت سے صرفِ نظر کر لیا تھا کہ ہر قطرہ انہی مراحلِ درد سے گزر کر بیش نہیں ہو سکتا ۔ دراصل یہ ربِ کا ئنات کا ایک معجزہ نماراز ہے وہ جانتا ہے کہ کون سا قطرہ گہر ہونے کے قابل ہے۔(اللّٰہ جسے چاہتا ہے ارتقاکی راہ میں قائم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے) غرض کہ ارتقا مقصودِ تخلیق کائنات ہے مگر اس کی منزل کیا ہے ؟مادی ارتقاء کا دیوتا ڈارون بھی یہی کچھ کہہ سکا کہ نوعی ارتقا انسان پر آکر رُک گیا ۔ اب یہاں سے علمی و فکری ارتقا کی حدود شروع ہوتی ہیں گویا نوعی ارتقا کی انتہا انسان ہے اور انسان کی فکری و علمی ارتقا کی انتہا کیا ہے ؟ یہاں آکر سائنس اور فلسفہ کی فکری کا وشیں چپ سادھ لیتی ہیں اور حضرت اقبالؒ یہ کہہ کر چٹکی لیتے ہیں:

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

تو خرد مند اپنی در ماندگی پر دم بخودرہ جاتے ہیں ۔ یہاں ڈارون اور فرائیڈسانس روک لیتے ہیں۔ ارتقا کا آغاز کس انداز سے ہوا ؟ اس موضوع پر تو وہ ظن و تخمین کے تیر چلاتے ہیں مگر انسان کی انتہا کیا ہے؟ اسے کہاں پہنچ کر اپنا سفرِ ارتقا ختم کرنا ہے۔ علم و دانش کا یہ طویل سفر کون سی منزل پر اختتام پذیر ہوگا ؟ کون ہے جس کے نقش پاپر سجدے بکھیرتے ہوئے انسان اپنی منزلِ مقصود سے ہم آغوش ہو کرکہہ سکے گا،

منزل مِلی مقام ملا مد عا ملا ِ

سب کچھ مجھے ملا جو تر انقش پا ملا

یہ تمام سوالات سائنس کی بار گاہ میں ابھی تشنہ جواب ہیں ۔ دانشوروں نے اپنے اپنے انداز میں ان کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ نطشے کے نزدیک فوق البشر کی تخلیق ہی فکری ارتقاکا منتہیٰ ہے مگر اس سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا پیش کر دہ ' فوق البشر ' قوت کا جابرو قاہر مجسمہ تو ہو سکتا ہے مگر اس میں رحمت و شفقت کے جذبات سر اسر مفقود ہیں، اس کافوق البشر ہٹلر اور مسولینی کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے اور پوری دنیا کو بھسم کر دینے کے وحشی جذبات سے مغلوب ہو کر انسانیت کی طرف توپوں کے دہانے موڑ دیتا ہے ۔ نطشے کے بعد تعمیر پسند مفکرین میں سے رابرٹ بر یفالٹ اور بر ٹرینڈ رسل نے ان موضوعات پر سوچا ۔ان لوگوں کا دور وہ ہے جب نطشے کا فوق البشر ایک ہی صدی میں انسانیت کو دو عالمگیر جنگوں کے جہنم میں جھونک چکا تھا ۔ ان جنگوں کی ہلاکت خیزیوں نے پوری دنیا کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ امنِ عالم کی بات کرے ۔ بریفالٹ نے اس دور میں تعمیرِ انسانیت لکھی جس میں اس نے بتایا کہ انسانی ارتقاایک ایسے دور کا متقاضی ہے جس میں انسان اس قدر بیدار ہو چکا ہے کہ وہ اپنے مفاد پر مفادِ غیر کو ترجیح دے۔ رَسل نے بھی انہی نظریات کا پر چارک بن کر عالمی امن پر زور دیا مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہا کہ ارتقایا فتہ معاشرہ کس طرح وجود میں آسکتا ہے ۔ گویا بے خدا تہذیب و حکمت کے علمبرداروں کے یہاں یہ سلگتا ہوا سوال ابھی تک تشنہ جواب ہے اور انسانیت مجبور ہے کہ اس سوال کا جواب اسی سے مانگے جس نے تخلیق و ارتقا کا یہ سلسلہ چھیڑا ہے ۔ اس طرح نگاہ ڈالئے تو حقائق خود ہی بے نقاب ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

انسانیت کے ہر دور میں ارتقا کی رہنمائی کیلئے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے انبیاو رسل بھیجنے کا سلسلہ زر یں جاری رکھا، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اپنے اپنے دور کی رہنمائی کے لئے وقت کے مطابق کامل و اکمل رہنما تشریف لاتے رہے اور اپنے فرائضِ منصبی بطریقِ احسن سر انجام دیتے رہے مگر ابھی تک کائنات کا ارتقا نا تمام تھا ۔ اس لئے کن فیکون ' کی صدائیں آتی رہیں اور جب انسانیت فکر ی لحاظ سے اپنے آخری اور تکمیلی دور کا آغاز کرنے لگی اور اس نے اپنی راہ نمائی کیلئے تڑپ کر آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان والے نے اہل زمین کی ترستی نگاہوں کو مایوس نہیں کیا اور قیامت تک کیلئے حضور سر ور عالم ۖﷺکی ذات میں ایک ہادی برحق اور رہبرِ کامل و اکمل کو بھیج دیا، جو جمیع صفاتِ حسنہ کا مجموعہ دلنواز تھا۔

آپؐ کی تشریف آوری پر جتنی بھی خوشی کی جائے اتنی کم ہے ۔عمران خان کی حکومت آئی تو پہلے سال عید میلاد النبیؐ کے موقع پر ’’حکومت پنجاب نے ہفتہ رحمتہ اللعالمینؐ منایا اور پھر اگلے سال اسے عشرہ رحمتہ اللعالمینؐ میں بدل دیا۔خاص طور پر سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔اس وقت پنجاب کے وزیر ثقافت و کھیل و امور نوجوانان تیمور مسعود ملک عشرہ رحمتہ اللعالمینؐ منانے میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اور یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی سرپرستی میں ہورہا ہے ۔ پنجاب آرٹس کو نسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ابرار عالم اور الحمرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذوالفقار ذلفی بھی اس سلسلے میں مبارک باد کے مستحق ہیں جو سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ منصور احمدکی زیر نگرانی پورے پنجاب میں عشرہ رحمتہ اللعالمینؐ کی تقریبات کا انعقاد کررہے ہیں اور آخر میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورکے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی کا ضرور ذکر کروںگا جو مجلس ترقی ادب کے اشتراک سےایک یادگار کل پاکستان نعتیہ مشاعرہ کرا رہے ہیں ۔ مجلس ترقی ادب نے اس موقع پر احمد رضا خان بریلوی اور محسن کاکوروی کے نعتیہ مجموعۂ کلام شائع کئے اورنعتیہ ویب سائٹ کا آغاز کیا، جس میں اردو زبان میں کہی ہوئی تمام نعتیں شامل کی جارہی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)