لانگ مارچ پر حملہ اور سیاسی تنزل پذیری

November 06, 2022

لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر قاتلانہ حملے نے ملک میں جاری سیاسی بحران کو اور بھی شدید کر دیا ہے ۔خدا کا شکر ہے کہ وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی بحران اس وقت جنم لیتے ہیں جب ملک کو درپیش مسائل شدید تر ہو جاتے ہیں اور مسائل کے حل سے متعلق مجموعی اتفاق رائے تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ہر فریق سیاسی یا غیر سیاسی واقعے کو اپنے پیش کردہ حل کو تقویت پہنچانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر ذی شعور سیاسی ورکر نے اس حملے کی مذمت کی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرا کےحالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جائے۔گو کہ عمران خان کی روش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت وہ گزشتہ کئی ماہ سے ’’سماجی تطہیر‘‘کے عمل کو بہتر کرنے کی غرض سے موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا نے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ وہ جلد از جلد غیر آئینی طور پر انتخابات کرائیں اور آرمی چیف کو اپنی مرضی سے لگوائیں۔اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ دونوں آرمی چیف کیلئے تین تین نام دیں اور آرمی چیف کو مل کر لگائیں مگر شہباز شریف نے اس پیش کش کو رد کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمے داری پوری کرنے کا عندیہ دیا اور عمران خان کوپیش کش کی کہ اس نازک وقت میں میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کیا جائے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، جس کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی چار سالہ بے سر و پاء حکمت عملی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلاب نے بھی موجودہ معاشی مشکلات میں شدید اضافہ کر دیا ہے۔اس لئے دانشوروں اور سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ انتخابات فروری، مارچ میں نہیں کرائے جاسکتے کیونکہ انتخابات کیلئے آئین کے مطابق تین ماہ کیلئے نگران حکومت کا قیام ضروری ہے اور نگران حکومت دیر پا معاشی فیصلے نہیں کر سکتی ۔ یوں معاشی ڈیفالٹ کا خطر ہ مزید بڑھ جانے کے امکانات ہیں۔ تاریخ اور عمرانیات سے روگردانی کسی بھی سماج میں جہالت اور تنگ نظری کو دعوت دیتی ہے۔ عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ وہ آج اجتماعی فکر اور حکمت کے نعم البدل نہیں بن سکتے جس کی ملک کو اس نازک موڑ پر ضرورت ہے۔ عمران خان کا تجویز کردہ سیاسی حل ملک کو جمہوری اور جوابدہ حکومت کے قیام کی بجائے فسطائیت کی طرف لے جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے ایجی ٹیشن اور لانگ مارچ کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہےکہ اس نے ایک طرف لانگ مارچ کے نام پر لوگوں کو جان پر کھیلنے کی تلقین کی ہے لیکن دوسری طرف اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ملک کی معاشی زندگی کو مفلوج کر دیا تھا جس کا ازالہ کرنے کیلئے وہ بالکل تیار نہیں ہیں۔ ان حالات میں سیاستدانوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف ایک دفعہ پھر سیاسی سماج کو ارتقا پذیری کی راہ پر ڈالیں بلکہ مل کر ایسا میثاق جمہوریت اپنا ئیں کہ کوئی سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کر سکے۔اس سلسلے میں پی ڈی ایم کی تما م پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ ہر صورت میں عمران خان کو بات چیت کیلئے آمادہ کریں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھناپڑے گی کہ عوام کا ایک ایسی پارٹی کی طرف جھکائو ہے جو اپنی ضرورت کے تحت غیر آئینی فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اور عمران خان پرحالیہ حملے نے ان کی مقبولیت کو اور بڑھا دیا ہے۔اس سے پہلے حکومت کے سامنے عمران خان کا مئی کا لانگ مارچ بھی ہے جس میں ڈی چوک نہ جانے کا حلف نامہ بھی جمع کروایا گیاتھالیکن اسکی پاسداری نہ کی گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے تلخ تجربات بھی سب کے سامنے ہیں۔اس لئےضروری ہے کہ عمران خان پر حملے کے پیش نظر لانگ مارچ کا جواب ہر صورت میں دھیمے لہجے اور سیاسی حکمت عملی سے دیا جائے ۔

بدلتے ہوئے حالات کے باوجود سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان اسلام آباد میں آکر دھرنا ضرور دیں گے ۔ اس سے پہلے ایک انٹرویو میں عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ وہ جب وزیراعظم تھے تو اختیارات ان کے پاس نہیں تھے لیکن وہ اب اس وقت تک وزیر اعظم کا عہدہ نہیں سنبھالیں گے جب تک ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہ ہو۔ان حالات میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کو بدلنے کا ایک سنہری موقع بھی ہے ۔اب جب کہ عمران خان کے پاس سیاسی مقبولیت بھی ہے تو انہیں چاہئے کہ پی ڈی ایم سے ملک کر ایسا دیر پا میثاق جمہوریت کر لیں کہ جس کے بعد کسی بھی وزیر اعظم کو یہ نہ کہنا پڑے کہ اس کے پاس اختیارات نہیں تھے۔ لیکن عمران خان کی حکمت عملی سیاسی مبصرین کی سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل التجاء کر رہے ہیں کہ وہ اس منتخب حکومت کے خلاف ویسے ہی حالات پیدا کرے جیسےکہ 2018ء میں پیدا کئے گئے تھے ،جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ملک میںجمہوری ارتقاء کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہر صورت میں بر سر اقتدار آنا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ ایک پائیدارجمہوری سیاست ہی سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک ہوتی ہے لیکن عمران خان ہر کسی پر کرپشن کا مسلسل الزام لگا رہے ہیں اور انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ کرپشن ادارہ جاتی اقدارکے بغیر ختم نہیں کی جا سکتی۔یوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ احتساب کو ایک نعرہ بازی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جھوٹ پر مبنی بیانیہ کی وجہ سے فرد ہیرو تو بن جاتے ہیں لیکن اس سے اصولوں کی پسپائی ہوتی ہے اور یوں اچھی روایات نہ اپنانے کی وجہ سے سیاسی ارتقا ء مزید زوال پذیرہو جاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)