شادی سے پہلے لڑکا ’چیک‘ کرنے کا طریقہ

November 20, 2022

ہوم اکنامکس کالج لاہور کی ایک پرانی درس گاہ ہے ، یہاں میری والدہ کیمسٹری پڑھایا کرتی تھیں،کیمسٹری ویسے ہی بڑا مشکل مضمون ہے اور والدہ محترمہ اُس کی بھی ایک دقیق شاخ بائیو کیمسٹری پڑھاتی تھیں۔ بعض اوقات مجھے حیرت ہوتی تھی کہ لڑکیوں کے کالج میں اِس مضمون کا کیا کام، خیر یہ زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں۔ اب یہ کالج یونیورسٹی بن چکا ہے اور ڈاکٹر کنول امین جیسی دبنگ خاتون یہاں کی رئیس جامعہ ہیں جو آئے روز مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد کرواتی رہتی ہیں ، انہوں نے یونیورسٹی میں ایک نفسیاتی علاج گاہ بھی قائم کردی ہے جہاں ملک کے نامور ڈاکٹروں سے علاج معالجہ اور مشورہ کرنے کی سہولت موجود ہے ۔گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے شعبۂ انسانی ترقی و نفسیات کی جانب سے ایسے ہی ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا دعوت نامہ ملا جس کا مقصد دماغی صحت اور اُن سے جڑے مسائل پر گفتگو کرنا تھا۔ نہ جانے کیا سوچ کر سربراہ شعبہ عطیہ گیلانی نے مجھے دماغی مسائل کے اِس سیمینار میں مدعو کیا ،بہرحال وجہ چاہے جو بھی ہو،اِس سیمینار میں ہونے والی گفتگو اِس لحاظ سے مثبت رہی کہ مجھے طالبات کو یہ بات سمجھانے کا موقع مل گیا کہ وہ اپنی زندگیوں میں شادی جیسااہم فیصلہ کرتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ کہیں اُن کا پالا کسی ذہنی مریض سے نہ پڑ جائے ۔میں نے کہا کہ آپ لوگ جتنا وقت اور تردد اپنی زندگی کے غیر اہم فیصلوں پر صرف کرتے ہیں اتنی پڑتال اگر اُس مرد کی بھی کرلیں جس سے شادی کا ارادہ ہو تو شاید آپ کی زندگی سکھ میں گزر جائے ۔اِس موقع پر ایک طالبہ نے سوال کیا کہ لڑکی اگرشادی سے پہلے لڑکےکے دماغی معائنے کا مطالبہ کرے گی تو شادی تو دور کی بات لڑکے والے تو چائے کی ٹرالی اُلٹا کر چلے جائیں گے، ایسے میں لڑکے کو ’چیک‘ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟اِس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں لیکن کچھ طریقے بہرحال ایسے ضرور ہیں جن کی بنیاد پر لڑکے کے ذہنی رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔وہ طریقے کیاہیں؟

پہلی بات تویہ ہے کہ لڑکے کو فیمینسٹ ہونا چاہیے ،اگر لڑکا عورت کو مرد کے برابر نہیں سمجھتا ، اسے پاؤں کی جوتی سے تشبیہہ دیتا ہے ، اُس کی آزادی کا مخالف ہے ، نوکری کرنے والی عورتوں کو اچھا نہیں سمجھتا ،اسے خود مختار عورتیں پسند نہیں جو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں تو ایسا بندہ چاہے شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتاہو،اُس سے شادی کا خیال دِل سے نکال دیں، ایسے شخص کو بیوی نہیں باندی چاہیے ۔اور رہی یہ بات کہ کسی شخص کے خیالات کے بارے میں جانکاری کیسے حاصل کی جائےتویہ کام زیادہ مشکل نہیں ، انسان طویل وقت تک خود پرمنافقت کا خول چڑھا کر نہیں رکھ سکتا ، آپ کسی بندے سے دو چار مرتبہ مل لیں تو اُس کے خیالات کا اندازہ ہو جاتا ہے لہٰذا یہ مت سوچیں کہ لوگوں کوجاننا نا ممکن بات ہے۔ٹھیک ہے کہ آپ کسی کے دل کا حال نہیں جان سکتے مگر چند ملاقاتوں میں آپ اُس کے چیدہ چیدہ خیالات کا پتاضرور لگا سکتے ہیں ۔اِس کام کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ موروثی بیماریوں کی تفصیل معلوم کی جائے ، بظاہر یہ بات بہت عجیب لگے گی کہ آپ رشتہ تلاش کرتے وقت یہ شرط رکھیں کہ ہمیں لڑکے کے گھروالوں کی تمام ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے متعلق آگاہ کیا جائے مگر قطعی غیر محسوس انداز میں یہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔یہاں شفیق الرحمٰن کا ایک مضمون یاد آگیا جس میں شادی کا خواہش مند نوجوان اپنے ہونے والے خُسر سے ملنے جاتا ہے اور انٹرویو میں ناکام ہوکر لوٹتا ہے کیونکہ بزرگوار بڑھاپے کی بیماریوں سےمتعلق بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ نوجوان کسی قسم کی بیماری کے بارے میں جانتا تک نہیں ۔ سو آپ ہرگز یہ غلطی نہ کریں بلکہ اُلٹا لڑکے کے گھر والوں کی بیماریوں کے بارے میں ایسے گفتگو کریں جیسے آپ کو اِس بات کی بہت فکر ہے، غالب امکان ہے کہ وہ لوگ خود ہی اپنا کچا چٹھاکھول کر رکھ دیں گے۔اسی سے جڑی ایک نہایت اہم بات جنسی رجحان معلوم کرنا بھی ہے ۔ممکن ہے آپ کو میری یہ بات احمقانہ لگے کہ ایک مشرقی لڑکی جس کے رشتے کی بات چل رہی ہو وہ کس طرح اپنے ہونے والے شوہر کےجنسی رجحان کا پتا چلا سکتی ہے ۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات بے حد عجیب ہے بشرطیکہ براہ راست یوں پوچھی جائے کہ جناب آپ ’سیدھے‘ ہیں یا کچھ اور ! لیکن آپ اگر شادی سے پہلے لڑکے سے بات چیت کرلیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ کس قسم کا جنسی رجحان رکھتا ہے بلکہ وہ خود ہی’سب کچھ‘ بتا دے گا۔

انسان کسی سے دوستی کرتے وقت ایسا کوئی پیمان نہیں باندھتا کہ اگلے پچاس برس تک وہ فلاں شخص کا دوست رہے گے لیکن شادی ایسا بندھن ہے جس میں ہمیں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اگلی کئی دہائیوں تک ہمیں اِس مرد یا عورت کے ساتھ رہنا ہے ،اسی لیے ایسے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے لاز می ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے متعلق تمام ضروری معلومات اکٹھی کر لیں ، جیسے کہ اُن کے مذہبی خیالات کیا ہیں ،سیاسی سوچ کیا ہے ،وہ یہ بھی طے کرلیں کہ بچوں کی پرورش کیسے کی جائے گی ،گھر کے ذرائع آمدن اور اخراجات کیسے تقسیم ہوں گےاور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر کل کلاں کو شادی ختم ہوگئی تو لڑکی کہاں جائے گی اور کیسے رہے گی؟ ہمارے ہاں شادی کے موقع پرحق مہر پر بات کرنے کوبھی مناسب نہیں سمجھا جاتا ،لڑکی والے اگر زیادہ حق مہر طلب کریں تو لڑکے والے انہیں لالچی اور بد نیت سمجھتے ہیں۔ اِس مسئلے کا سوائے اِس کے اور کوئی حل نہیں کہ لڑکی کو وہی قانونی تحفظ دے دیا جائے جو مغربی ممالک میں اسے حاصل ہے ،وہاں جب شادی کو مخصوص مدت گزر جاتی ہے تو لڑکی اپنے شوہر کی جائیداد میں حصہ دار بن جاتی ہے اور اگر پھر اُس کا شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ نصف جائیداد دے کر فارغ کرتا ہے ۔ سو ،ہمارے ملک میں بھی یہ قانون بنانے کی ضرورت ہے ، یہاں حقوق نسواں کی تنظیمیں اگر ایسا قانون منظور کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو اِس سے بڑی اور کوئی نیکی عورت کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

اِس سے پہلے کہ عاشقانِ بتاں مجھے مطعون کریں ،میں خود ہی اِس بات کا اعتراف کرلوں کہ محبت بھی شادی کے لیے بے حد ضروری ہے بلکہ سچ پوچھیں تو پہلی چیز ہی محبت ہے ، مگر محبت کی لذت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لڑکے کے پاس مناسب گاڑی ہو، وہ بچوں کو معیاری اسکولوں میں پڑھانے کی استطاعت رکھتا ہو اور اُس کے گھر میں گیزر اور پانی کی موٹر وغیرہ ٹھیک طریقے سے کام کرتی ہو، ایسا نہ ہوکہ جب وہ کہے کہ جان ِ من مجھے تم سے محبت ہے تو بیوی جل کر جواب دے کہ پہلے گیزر ٹھیک کروائیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)