رسوائیاں پاکستانی سرمایہ داروں کے تعاقب میں!

November 23, 2022

انقلاب کیلئے ایک ہمہ گیر، مقبول عام مگر قول وفعل میں صادق ایسا رہنما درکار ہوتا ہے جس کے ساتھی یعنی ٹیم بھی اسی طرح کے اوصاف سے مزین ہو۔ مسلسل غریب کش ہتھکنڈوں کے طفیل اب اس کے بغیر چارہ بھی نہیں کہ موجودہ بندوبست پر ہی صاد کیا جائے، کیونکہ بقول فیض اس نقشے سے برآمد ہی کیا کیا جا سکتا ہے،’’ستم پہ خوش کبھی لطف وکرم سے رنجیدہ.... سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا‘‘۔ گویا کہ حاضر نظام نےاہل و مخلص کھیپ کو ایسا ٹھکانے لگا دیا ہے کہ فکر ِفعاش کے سبب حواس اُن کے بحال نہیں، ہرگاہ تذبذب ہے، بقول حضرت فیض اب سعی کا امکاں نہیں، پرواز کا مضمون ہو بھی چکا، تاروں پہ کمندیں پھینک چکے، مہتاب پہ شبخون ہو بھی چکا، اک موت کا دھندا باقی ہے، جب چاہیں گے نپٹا لیں گے، یہ تیرا کفن ہے، وہ میرا کفن، یہ میری لحد، وہ تیری ہے۔ اس میں شائبہ تک نہیں کہ مایوسی کفر ہی ہے، لیکن جب میں نے گزشتہ دو ہفتوں سے بیڈ ریسٹ کی وجہ سے مختلف چینلز پر مناظروں کا تماشا دیکھا تو کیا پھر بھی’’اُمید‘‘ ہی سے رہتا! ستم بالائے ستم کہ ایسے تماشوں کے لاکھوں دیکھنے والے! کیا یہ ان لاکھوں کے فکر معاش سے بے فکری ہے یا مستی ہے؟ پھر میری مایوسی یوں بھی بڑھ جاتی ہےکہ دیکھتا ہوں کہ وہ پاکستانی نژاد امریکی، برطانوی، کینیڈین وغیرہ جب ان ممالک میں ہوتے ہیں تو نظم وضبط کے پابند، مگر اپنے ملک پہنچ کر اُن کے ضبط کے بندھن ایسے تار تار دکھائی دیتے ہیں جیسے یہ دن گنے تھے اس دن کیلئے!! اس سے بہرصورت یہ تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ممالک اگرچہ غیر ہیں لیکن بلا امتیاز تمام رعایا سےسلوک مساوی ہے، اس خاطر یہ پاکستانی بھی اس سوسائٹی میں خود کو مہذب ثابت کرنے میں آسانی کے ساتھ تسکین وراحت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اسلام کے اُس مقدس نام پر وجود میں آیا جس کا کوئی پہلو تاریک نہیں تو پھر ہم اندھیرے میںکیوں ہیں، نفسا نفسی کیوں ہے! پروفیسر رفیع اللہ شہاب، ’’پاکستان کے پچاس سال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قائداعظم ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے،،جس میں لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہیںہو گی، 1943میں کل ہند مسلم لیگ اجلاس دہلی میں صدارتی خطبے میں آپ کا کہنا تھا ’’ایک وقت کی روٹی کا نہ ملنا کیا تہذیب ہے، کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟۔ ’’راقم کا کہنایہ ہے کہ موجودہ حکمران قائداعظم کے فرمودات کا جائزہ لیں کہ کیا ان میں اخلاص نہیں تھا یا یہ صرف نعرے تھے آخر کیوںکر بعد میں اقتدار ہتھیانے والوں نے عمل کو درخور اعتنا نہ سمجھا؟ جہاں تک مکافات عمل کا تعلق ہے تو وہ اب پاکستان میں تیزی مگر بے دردی کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ رسوائیاں اشرافیہ کی بڑی تعداد کے گرم تعاقب میں ہیں، ہر چینل پر ایک سرمایہ دار اپنی بے بسی، بدنامی اور ایسی سازش جو اس کے اندرون تک جا دیکھنےمیں کامران ٹھہرا ہو کا ذکر بہ تکرار کرتا نظر آتاہے، یہاں تک کے آنسو بھی اپنے مالک کے اس یکایک جذبات پر برانگیختہ ہو جاتے ہیں۔ ان میںزیادہ تر دیارغیر سے یوں وارد ہوئے کہ پیسہ بہت کما لیا اب نام کے ساتھ اختیارات سے بھی لطف اٹھاتے ہیں، مگر وائے افسوس! آج رسوائیاں ہر ایک کے ذوق کے مطابق اُن پرخندہ زن ہیں۔ ان لوگوں نے یہ غورہی نہیں کیا کہ یہاں اکثر مساجد میں مردے کے کفن دفن کیلئےچندے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی دیگر ممالک میں کوٹھیاں اوربینک بیلنس ہیں۔ فرعونوں کا یہ دلچسپ عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد جب وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تو انہیں دنیا ہی کی طرح مال و اسباب کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں تک کہ ما ل دار دو شیزائوں کیلئے سامان حُسن مثلاً غازہ، اُبٹن، کنگھی، آئینہ وغیرہ تک رکھ دیا جاتا،، پوشاک، سواری، شکار کے سامان کی تفصیل با تصویر کتاب موسومہ ’’طوت النخ عامون کی زندگی اور موت‘‘ اور ’’طوت النخ عامون کا خزانہ‘‘ میں موجود ہیں۔ آج سے 6ہزار سال قبل کے تعمیر شدہ اس ہرم میں 25لاکھ پتھر لگائے گئے، جنہیں بنی اسرائیل کے’’بیگاری مزدور‘‘ گھسیٹ کر لے جاتے تھے یوں ایک فرعون کی تدفین کے دوران ہزاروں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ہمارا عقیدہ ظاہر ہے دوبارہ جی اٹھنے کا نہیں، تاہم عملی صورت مال جمع کرتے رہناہی ہے۔ بنا بریں ان سب کے باوجود سرمایہ دار بھی تو رسوا، یہ صورتحال گوکہ غریبوں کیلئے اطمینان بخش ہے لیکن ہمیں موجودہ نظام میں ہی بقا، فلاح و ترقی کا کوئی راستہ اسلئے نکالنا ہوگا کہ کُلی تبدیلی کیلئے استقامت درکار ہے۔