مجھ سے پہلی سی محبت....

November 24, 2022

خان صاحب کی سوچ کےبارے میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ کہاں اقتدار کے مز ے، کہاں کنٹینر کی سیاست کے بعد پھر سے اقتدار میں آنے کی خواہش میں کیا کچھ نہیں کھو دیا۔ اقتدار سے پہلے کنٹینر پر دھرنا دیئے کھڑے تھے کہ چین کے صدر کا دورہ پاکستان منسوخ کرواکے ایک اچھے دوست سے تعلق خراب کرلیا۔ اب پنڈی کی طرف رواں دواں لولا لنگڑا لانگ مارچ جی ٹی روڈ سے تتر بتر ہوگیا اور اب کہتے ہیں کہ 26 نومبر کو پنڈی لینڈ کروں گا لیکن اس سارے تماشے میں پاکستان کے سب سے قریبی دوست سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کا مختصر دورہ پاکستان ”ری شیڈول“ ہو گیا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن جواز تو موجود ہے کہ یہ انتہائی اہم دورہ ملتوی کیوں ہوا؟ اقتدار سے نکلے اور امریکی سائفر کا سازشی بیانیہ منظر عام پر لے آئے تو امریکہ سے تعلق بھی کھو بیٹھے اور اس بیانیے سے بھی مکر گئے پھرقومی سلامتی کے اداروں کی اہم شخصیات کے پیچھے پڑ گئے۔ امپائر جب بالکل ہی نیوٹرل ہوگیا تو کسی خاص ہمدرد نے انہیں یہ مشورہ دے کر دشمنی نبھائی کہ چیف صاحب تو ریٹائر ہو رہے ہیں ان کو نشانہ بنانے اور ان کے قابل بھروسہ ساتھیوں پر تابڑ توڑ حملوں کا کوئی سیاسی نقصان نہیں ہو گا لیکن مشورہ دینے اور لینے والے دونوں ہی بھول گئے کہ ہاتھی مرا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ پاکستانیوں نے سیاسی تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ قومی سلامتی کے اداروں نے خان کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود کس صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ورنہ وہ تو اس بات پر بھی تلے ہوئے ہیں کہ مارشل لاءلگتا ہے تو لگ جائے میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ اسی کو کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ لیکن خان صاحب کو کون سمجھائے کہ حالات بدل چکے ہیں اب وہ اقتدار میں ہیں نہ کسی کے لاڈلے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے ہی زور ِبازو پر کرنا ہوگا لیکن حد ہی کر دی کہ اپنے چھبیس سالہ سیاسی کیریئر کے تجربات سے کوئی سبق نہیں لیا۔ اب بھی سہاروں کی تلاش میں ہیں۔ پہلے طاقت وروں کا نام لے کر دھمکیاں دیتے تھے اب راتوں کو منت ترلوں پر اُتر آئے ہیں اور جو قریبی دوست، ساتھی ان ملاقاتوں، رابطوں کے گواہ ہیں جب وہ وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں تو انہیں پارٹی سے نکال کریہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں لیکن ان کے پرانے رفیق کار، انہیں اپنا لیڈر ماننے والے صدر پاکستان جناب عارف علوی کاکیا کہئے کہ وہ بھی اقرار کررہے ہیں کہ وہ خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سب سے بڑے رابطہ کار ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور خان کے درمیان ایک بار پھر مفاہمت اور دوستی ہو جائے۔ مگر دوسری طرف سے صاف جواب ہے کہ ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ اور خان کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ محبت صرف ایک بار ہی ہوتی ہے جب یہ نازک کلی مرجھاجائے تو پھر صرف رونا پیٹنا اورانتقام کی آگ میں الزام تراشی کرنا ہی باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہی کر رہے ہیں پرانے تعلق کو توڑ کر نئے رشتے نبھانا انتہائی مشکل کام ہے۔ کہیں قسمت سے پہلی محبت سرِ راہ مل بھی جائے تو پہلے سا جذبہ، گرم جوشی باقی نہیں رہتی۔ صدرمملکت کے ارشادات کی روشنی میں خان صاحب نے کوئی ہاں کی ہے نہ ہی ناں۔ خدشہ یہی ہے کہ جب امتحان کا وقت آئے گا تو خان اپنے دوست، دیرینہ ساتھی سے طاقت وروں کے حوالے سے اپنے خط کا جواب ضرور مانگیں گے۔ افسوس! خان صاحب اسی خمار میں رہے کہ وہ اسٹریٹ پاور سے سارا نظام درہم برہم کرکے ہرادارے پر اپنا قبضہ جما لیں گے لیکن یہ بھول گئے کہ جب اقتدار میں تھے تو سب سے پہلے بیورو کریسی کا نظام تباہ و برباد کیا، سیاسی مخالفین کو نیب زدہ کرکے جیلوں میں بند کرکے مفاہمت کا وہ دروازہ بھی بند کر دیا جو کبھی کبھار سیاست میں کھولنا پڑ ہی جاتا ہے پھر بھی کہتے ہیں کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا۔ حکومت کوئی اور چلا رہا تھا۔ تمام اداروں کو تباہ و برباد، متنازعہ بنانے اور اہم تقرریوں کی راہ میں روڑے اٹکانے، قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہ کرنے کی پاداش میں آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کی فوری تبدیلی کا مطالبہ تسلیم نہ ہونے کی صورت میں ان کے خلاف اقوام متحدہ کو خط لکھنے کی دھمکی دینے کے بعد خان صاحب نے تازہ ترین یو ٹرن یہ لیا ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی ہو، آئی جی پنجاب کسی کو بھی لگا دیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ساتھ ہی کہتے ہیں کہ میرا مقصد کسی تقرری کو متنازعہ بنانا ہرگز نہیں، بس میرٹ پر تقرریاں ہونی چاہئیں، خان صاحب سے پوچھنا یہ ہے کہ میرٹ سنیارٹی والا چاہئے یا من پسند۔ ویسے اس حوالے سے خود ان کا اپنا ریکارڈ بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ اللہ خان صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، ان کی درفنطنیاں ہی ہماری سیاست کی رونق ہیں۔