سیرت سازی کے مثالی مراکز

November 25, 2022

پاکستان کی منزل جب قریب آ گئی، تو مسلم لیگ میں ایسے بااثر گروہ شامل ہوتے گئے جو سیکولر اور لبرل نظریات کے حامل تھے جب کہ حکیم الامت علامہ اقبال اور قائدِاعظم ایک ایسی ریاست کے حصول کے زبردست داعی تھے جس میں اسلامیانِ ہند اسلامی عقائد اور اپنی درخشندہ روایات کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کر سکیں۔ موقع پرست لوگ بڑی چابک دستی سے اقتدار کے مالک بن بیٹھے اور سرکاری ذرائع سے لادینی اور اشتراکی نظریات کا پرچار بھی کرنے لگے۔ وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں نے دستورساز اسمبلی سے ’قراردادِ مقاصد‘ منظور کرا کے نئی مملکت کی سمت کا واضح تعین تو کر دیا تھا، مگر انگریزوں کی تربیت یافتہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے طاقت ور عناصر اور بڑےبڑے جاگیردار اس پر عمل درآمد کی راہ میں حائل رہے۔ اس ابتدائی دور میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی ریاست کے تقاضوں اور اِسلامی دستور کی اہمیت پر فکرانگیز مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور معاشرے کے ہر طبقے میں اسلامی سوچ کو پروان چڑھانے کو غیرمعمولی اہمیت دی۔ سب سے پہلے اُنہوں نے درسِ قرآن کا باقاعدہ نظام قائم کیا جس میں بتدریج وسعت پیدا ہوتی گئی۔ راقم الحروف سالہاسال برکت علی ہال میں ہونے والے ہفتہ وار اِجتماع میں شریک ہوتا رہا جس میں مولانا مودودی درسِ قرآن، مولانا امین ا حسن اصلاحی درسِ حدیث دیتے جبکہ معروف صحافی ملک نصراللّٰہ خاں عزیز حالاتِ حاضرہ اور سماجی مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ جُوں جُوں شہروں اور قصبوں میں جماعتِ اسلامی کے حلقے اور دَفاتر قائم ہوتے گئے، اُن میں دارالمطالعے کا نظام بھی قائم ہوتا گیا۔ اس میں دینی کتابوں کے علاوہ اخبارات و جرائد اور دَرسی کتب بھی موجود ہوتیں۔ ارکانِ جماعت کے علاوہ محلے کے لوگ بھی اُن سےا ستفادہ کرتے۔ سوسائٹی میں طلبہ، اساتذہ، وکلا، صحافی، ادیب اور پیشہ ورانہ ماہرین بہت اہم کردار اَدا کر تے ہیں، چنانچہ اُن کی اخلاقی اور دِینی تربیت کے لئے اُن کے اندر تنظیم سازی کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے اسلامی جمعیت طلبہ دسمبر 1947ء میں قائم ہوئی جس کے تاسیسی اجلاس میں راقم الحروف کو شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اسی کے ساتھ ’’تنظیم الاساتذہ‘‘ قائم ہوئی جو کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ پر مشتمل تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’خواتین کا حلقہ‘ وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں، انجینئروں، صحافیوں، وکیلوں اور مزدوروں میں بھی اسلام دوست تنظیمیں قائم کی گئیں جن کے ہفت روزہ اِجتماعات ہوتے، درسِ قرآن دیا جاتا اور پیشہ ور مسائل زیرِ بحث آتے۔ اِس طرح ملک گیر سطح پر دینی تربیت کا عمل بھی مستحکم ہوا اور مسائل حل کرنے کے لئے صحت مند اپروچ کو بھی فروغ ملا۔ اس طرح ہر طبقے سے بڑی تعداد میں افراد اِسلامی تعلیمات سے فیض یاب ہو رہے تھے اور ان میں لادینی اور اشتراکی قوتوں کا مقابلہ کرنے کا داعیہ ابھرنے لگا۔ سیکولر مزاج کے لوگ ذرائع ابلاغ عامہ اور ثقافتی مراکز پر قابض تھے اور مسلسل پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ اسلام کا فرسودہ نظام قومی ترقی میں حائل ہے۔ حکمرانوں نے مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کا عوام کے اندر اِمیج خراب کرنے کے لئے مخصوص افراد پال رکھے تھے جو اُن پر گھناؤنے الزام لگاتے رہتے تھے۔راقم کو عمر اچھروی کے عجیب و غریب بیان یاد ہیں جن میں کہا جاتا تھا کہ جماعتِ اسلامی کو امریکہ سے امداد آتی ہے اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے امریکہ سے بھیجا ہوا منی آرڈر دَیکھا ہے۔ اسی طرح کے حملے مولانا غلام غوث ہزاروی بھی کرتے تھے۔ مولانا مودودی اُن کے کسی بیان کا جواب دینے کے بجائے اپنا دعوتی اور اِصلاحی کام کامل یک سوئی سے سرانجام دیتے رہے۔ وہ فضول بحثوں میں الجھنے کے قائل نہیں تھے اور زندگی کا ہر لمحہ اللّٰہ کا قرب حاصل کرنےمیں صَرف کرتے تھے۔ جماعتِ اسلامی کی تنظیم سازی کے عمل سے پہلے مزدوروں، کسانوں، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیموں پر بائیں بازو کا قبضہ تھا جو طبقاتی کشمکش کو ہوا دینے کو کامیابی کا زینہ سمجھتا اور ’ ایشیا سرخ ہے ‘ کے نعرے کو طاقت کا مظاہرہ۔ ان تنظیموں کے قائدین میں شائستہ اور مخلص لوگ بھی تھے۔ اُن کے مقابلے میں اسلام کی شناخت رکھنے والی تنظیمیں سرگرم ہوئیں، تو بتدریج اُن کا حلقۂ اثر بڑھتا گیا۔ یہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی حکمتِ عملی کی زبردست کامیابی تھی کہ اُن کی فکری رہنمائی میں یہ یونینز پیشہ ورانہ انتخابات جیتتی چلی گئیں۔ ریلوے، پی آئی اے، واپڈا کی یونینوں کو اُن رہنماؤں سے نجات مل گئی جو سالہاسال سے اُن کی گردنوں پر سوار تھے اور یہ تاثر دیتے آئے تھے کہ صرف وہی سرمایہ داروں، صنعت کاروں سے مزدوروں کا حق چھین سکتے ہیں۔ جلد ہی اُن کی اجارہ داریاں کمزور پڑتی گئیں۔ راقم الحروف کو اپنا ایک ذاتی تجربہ یاد آتا ہے۔ پی آئی اے جب سے قائم ہوئی تھی، اُس پر بائیں بازو کی یونین قابض چلی آ رہی تھی۔وہ ایک رسالہ بھی نکالتی تھی جس میں نظریہ پاکستان کے خلاف مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ ہفت روزہ ۔’’زندگی‘‘ کا اجرا ہوا، تو راقم نے اُس یونین کا پورا کچا چٹھا شائع کر دیا۔ اس پر یونین کے نمائندوں نے گالیوں اور دھمکیوں کی بوچھاڑ کر دی، مگر ناچیز کی تحریر کا یہ اثر ہوا کہ چند ہی ماہ بعد ریفرنڈم میں اس کی مخالف یونین ’پیاسی‘ جیت گئی جس سے پورا منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیاتھا۔ مولانا کی حکمتِ عملی کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ یونینوں کے معاملات میں دخل دینے کے بجائے اُنہیں آزادی سے کام کرنے اور پُرامن رہنے کا خوگر بناتے رہے۔ اُنہوں نے بڑی دانائی اور بالغ نظری سے تنظیموں کا جمہوری نظام قائم کیا اور بڑی حد تک پُرامن تبدیلی کا راستہ دکھایا۔ اس دوررس عمل میں تمام دینی اور جمہوری طاقتوں نے حصّہ لیا اور میدان صاف ہوتا گیا۔ بائیں بازو کا زور ٹوٹ گیا اور تعمیری اور مثبت سوچ پروان چڑھتی گئی۔ چند عشروں کی جدوجہد سے پورا ماحول تبدیل ہو گیا تھا اور ’ایشیا سبز ہے‘ کے نعرے گونجنے لگے تھے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی جس کی امتیازی خصوصیات کی حفاظت سے مستقبل کو مزید تابناک بنایا جا سکتا ہے۔ انہی سنہری اصولوں کی پاسداری لازم ہےجو تعلقات میں توازن اور جواب دہی کا احساس زندہ رکھتے ہیں۔