نیا چیف

November 25, 2022

سگمنڈ فرائیڈ کی Unconscious اور Jokes کے تعلق کے حوالے سے ایک کتاب ہے جس پر کارل ژونگ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا

ـ’Freud has taken the joke too far‘

ہمیں بھی آج کل کچھ ایسی ہی صورت حال درپیش ہے، مذاق ہی مذاق میں پورے ملک کو فالج زدہ بنا دیا گیا ہے، سب کچھ اپنی جگہ ٹھٹھرا ہوا ہے، سہما ہوا ہے،’ ’آسماں آس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے، چپ کی زنجیر کٹے وقت کا دامن چھوٹے، دے کوئی سنکھ دہائی کوئی پائل بولے، کوئی بت جاگے کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے۔‘‘

اب تو مضبوط اعصاب کے لو گ بھی چٹخ رہے ہیں، جب میچ پھنس جائے توکچھ دوست بے قراری میں بہانے بہانے ٹی وی کے سامنے سے اٹھ جایا کرتے ہیں، کسی کو تازہ ہوا کی فوری ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو اول وقت نماز ادا کرنے کے فضائل یاد آ جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی منظر ہم بھی دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں، ہم اجتماعی طور پر مضطرب ہیں، بات بدلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، کبھی ’گھڑی چور‘ میں دل لگاتے ہیں، کبھی فیکٹ فوکس کی رپورٹ میں، لیکن بہ قول جون بھائی ’’بچھڑ کر تیرے آستاں سے... لگایا جی بہت پر جی لگا نئیں‘‘۔ حالت یہ ہے کہ آج کل ہم ہر خبر کو ایک تعیناتی سے جوڑ دیتے ہیں۔ توشہ خانہ کیس تو سب کو پہلے سے معلوم تھا، اس وقت یہ نغمہ اتنے اونچے سروں میں دوبارہ کیوں چھیڑا گیا ہے؟ کیا عمران خان کو’’کینڈے‘‘ میں لانا مقصود ہے تاکہ وہ اس موقع پر کوئی Mis-Chief نہ کریں؟فیکٹ فوکس کی رپورٹ میں باجوہ صاحب کے خاندان کے ٹیکس گوشواروں کی روشنی میں جائیدادوں کی تفصیلات جاری کی گئیں، خبر کی حقانیت پر بھی غور کر لیں گے، پہلے اس کی ٹائمنگ پر توجہ کر لیں، باجوہ صاحب کو مزید متنازع بنا کر اس وقت کیا حاصل کرنا مقصود ہے؟ توسیع کو فراموش کر دیجیے، اپنی پسند ناپسند پرضد کی حد تک نہ جائیے؟ اطالوی ادیب البرٹو موراویا نے کہا تھا

'I saw the world through the grillwork of sex'

اب اپنی صورتِ احوال بھی کچھ یوں ہے کہ ہمارے اور منظر کے درمیان ’’اپاینٹمنٹ‘‘کی گرِل لگی ہوئی ہے، جو بھی نظر آ رہا ہے اس جعفری کے بیچ میں سے نظر آ رہا ہے۔

لگ بھگ پچپن سال پہلے جب کراچی میں جنرل موٹرز کا پلانٹ گوہر ایوب صاحب نے لیا تھا تو حیرت ہوئی تھی، افسوس ہوا تھا، غصہ آیا تھا، ہم نے انصاف مانگا تھا، مگرہماری نہیں سنی گئی، اور پھر چل سو چل۔ یونہی خیال آیا کہ وہ جو اپنے ایوب خان تھے انہیں ایکسٹینشنز کا بہت شوق تھا، پہلے چار سال چیف رہے، پھر چار سال کی ایکسٹینشن لی، پھر جون 1958 میں ایک چھوٹی سی، کیوٹ سی دو سالہ ایکسٹینشن لی، لیکن پھر ’صبرِ ایوب‘ کی انتہا ہو گئی،اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ ایکسٹینشن نہیں مانگیں گے، بلکہ خود ایکسٹینشن دیں گے، سو انہوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اگلے دس سال خود کو وسیع تر قومی مفاد میں توسیع دیتے رہے۔تو پھر اس قصے سے کیا یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ایکسٹینشنزسے بچوں کی ’پاکٹ منی‘میں اضافہ ہوتا ہے؟ بہرحال، عساکر کی موجودہ قیادت اتنی بالغ نظر ہو چکی ہے کہ لفظ ’ایکسٹینشن‘ سے باقاعدہ چِڑ کھاتی ہے، اور باجوہ صاحب تو اپنی پچھلی ایکسٹینشن پر بھی افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔یعنی نئی تعیناتی تو ہو گی۔ (اپائنٹمنٹ کو بھولنے کی بہت کوشش کی ہے مگر لگتا ہے ’سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا‘)

اُدھر نواز شریف ’آخری اوور‘ دیکھنے کے بجائے اپنے بچوں سمیت یورپ یاترا پر نکل گئے ہیں (کیپٹن صفدر اپنی نجی مصروفیات کی بنا پر ہمراہ نہیں جا سکے) میاں صاحب فولادی اعصاب کے مالک ہیں، پانچ آرمی چیف لگا چکے ہیں، اور اس ’تماشے‘ کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔غالباً وہ اس سلسلے میں اپنا کام پورا کر کے لندن سے نکلے ہیں۔پی ٹی آئی کے دوست سپہ سالاروں کی تعیناتی کے حوالے سے میاں صاحب کے ماضی کے فیصلوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ میاں صاحب کی تو اپنے ہر چیف سے لڑائی ہو جاتی ہے، توقع ہے اب نہیں اڑایا کریں گے، عمران خان نے آج تک کبھی آرمی چیف تو تعینات نہیں کیا لیکن ایک بار ایکسٹینشن ضرور دی ہے، امید ہے خان صاحب کی تسلی ہو گئی ہو گی۔ سیدھی سی بات ہے، آج تک کسی منتخب وزیرِ اعظم اور چیف کی لو اسٹوری کا انجام اچھا نہیں ہوا اور شاید آئندہ بھی نہ ہو سکے، جب تک کہ سول ملٹری تعلقات کو آئین کے منطقہ میں نہ لایا جائے گا۔ وزرائے اعظم پر ہمیشہ یہ الزام رہا ہے کہ وہ ’اپنا‘ چیف لانا چاہتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ’غیر سیاسی‘ چیف ڈھونڈتے رہے ہیں، کبھی سینئر افسر کبھی جونیئر افسر۔تاہم ، چیف جو بھی بنے وزیرِ اعظم کو اسے کہنا چاہیے ’تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن‘، یعنی اپنے حلف کا پاس دار تو بن۔

اس کالم کے موضوع کا حق ہے کہ اسے ’حافظ‘ کے کسی شعر پر ختم کیا جائے:

’’اگر آں ترکِ شیرازی بہ دست ارد دلِ مارا.... بہ خالِ ہندوش بخشم سمر قندو بخارا را‘‘

(روایت ہے کہ حافظ کا یہ شعر سن کر بادشاہ وقت تیمو’ر لنگڑا‘ طیش میں آ گیا تھا)