سی پیک، لانگ مارچ

November 25, 2022

چار مارشل لاں نے ملک کا بیڑاغرق کردیا اور چار جمہوری حکومتوں نے ملک کی معیشت کا جنازہ نکال دیا دونوں نے ہی ملک کے بخیے ادھیڑ ے ۔عوام کے چہروں پر اطمینان قیام پاکستان کے چند سال بعد تک نظر آیا ضرور تھا لیکن یہ حسن ایسا گہنایا کہ پھر اس کے بعد کبھی عوام کے پژمردہ چہروں پر ”لالی“ نہ دیکھی گئی ۔ انتشار و افتراق ،خلفشار ،انارکی ،مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہیں کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ لاکھ تدبیریں کی گئیں لیکن اصل مرض کی طرف توجہ نہ دی گئی۔نمائشی اقدامات اور خوشنما وعدوں سے قوم کو بہلایا جاتا رہا ۔کبھی ایک بلاک کی طرف عالمی برادری میں شمولیت اختیار کر کے ملک کا وقار بلند کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی کسی طاقتور ملک کے ہاتھ کی چھڑی اور بازو کی گھڑی بن کرقوم کو ترقی کے خواب دکھا ئے گئے افسوس کہ اس حقیقت کا ادراک ہی نہ کیا گیا کہ قوموں اور ممالک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں یہاں ”کچھ دو اور کچھ لو “کے اصول چلتے ہیں ۔ہم وعدہ فردا پر ہی بہلتے رہے ۔دوستوں اور دشمنوں میں تمیز ہی نہ کی کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا ۔ چین نے ہاتھ تھاما تو ہم نے مضبوطی نہ دکھا ئی اسے بھی کئی بار ناراض کیا اس نے ترقی کا جو راستہ دکھایا اور جو فارمولا دیا اس میں اپنے نسخے شامل کرکے اس کا بھی حشر نشر کردیا۔

آج بھی روڈ اینڈ بیلٹ کا منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ،سی پیک کا روٹ مکمل ہوا نہ ہی اس کے گرد اکنامک زونز کا نام و نشان نظر آرہا ہے جن کے وقفے وقفے سے دعوےکئے جاتے رہے کہ اب ہمارا مال تیار ہوکر عالمی منڈیوں میں جائےگا اور ترقی و خوشحالی ہمارے قدم چومے گی ہم معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیںگے ،ایشیا کے اکنامک ٹائیگر بننے کے خواب تاحال ادھورے اور تشنہ تکمیل ہیں۔ سارا ملک ہی سی پیک روٹ بن چکا ہے اس کے گرد البتہ رنگ برنگی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال ضرور بچھ چکا ہے اور ایسے خواب دکھائے جارہے ہیں کہ جیسے سی پیک روٹ کے قریب رہائشی افراد کو ڈالر، پاؤنڈ، یوآن،ین ،ریال ،بکھرے ہوئے ملیں گے اور سب سے زیادہ فائدہ سی پیک روٹ کےقریبی مکین ہی اٹھائیں گے ۔

سب ممکن تھا اگر روڈ میپ پر چلا جاتا اب بھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں، زیاں کو سود میں بدلا جاسکتا ہے جنہوں نے سی پیک روٹ کا آئیڈیا دیا ہے، تکمیل کا سارا معاملہ انہیں کے سپرد کردیا جائے، وہی اسے مکمل کرسکیں گے۔ آپ صرف ملک میں امن قائم کریں، سرمایہ کار دوست ماحول تخلیق کریں،وزیر اعظم شہبازشریف کے حالیہ دورہ میں ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ دورے کے دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ چین پاکستان سے ڈالر کی بجائے چینی یوآن میں تجارت کریگا۔ جس سے پاکستان کی مالی بحرانی کیفیت بہتر ہوگی۔ چینی کرنسی سے ڈالروں کی بجائے یوآن میں قیمت ادا کرکے روس سے سستا تیل خریدا جا سکے گا۔ قبل ازیں سابق دور حکومت میں بھی ایسا ہی فیصلہ ہوا تھا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تھی اب دیکھنا ہوگا کہ اس پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے اگرچہ کاروباری حلقوں نے اس فیصلہ کی ستائش کی ہے لیکن بات وہیں آکر رکتی ہے کہ ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے سیاسی منافقت کا زہریلا ماحول پیدا ہوچکا ہے ۔ چودہ جماعتوں کی ملغوبہ نما اتحادی حکومت جس کے بیشتر سٹیک ہولڈرز”سلیپنگ پارٹنرز“ بن چکے ہیں وہ فعال اور ہر طرح سے’ دامے ،درمے، سخنے قدمے ‘ساتھ نہیں ہیں ۔ایک’ طوفان‘ عمران خان لے کر آرہے ہیں ابھی پنجاب کا علاقہ عبور نہیں ہو ا، راستے طویل ہوتے جارہے ہیں۔ منزل اسلام آباد ہے جہاں کنٹینرز کے شہرنے شاہراہ جمہوریت کو اوجھل کررکھا ہے۔

تسلیم کہ عمران خان کو وزیر آباد میں ہوئے حملے میں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی اللہ نے جان بچا لی لیکن ظالموں نے کرکٹ کے کھلاڑی کومیدان سے باہر کرکے گھر میں بیڈ ریسٹ تک پہنچادیا ہے۔ سیاست کے نووارد کو کیا معلوم کہ پاکستان کی سیاست برطانیہ یا امریکہ کی سیاست نہیں ہے جس میں شہ دماغ ہار جیت کا ایک چال چل کر فیصلہ کردیتے ہیں ۔مانا کہ مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے لوگ پرامن ہیں جو اپنے بال بچوں کیساتھ مارچ میں شریک ہوتے ہیں اور اس واقعے سے قبل تک حقیقی آزادی مارچ کے شروع ہونے سے اب تک ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا اس سے زیادہ حکومت کو اور کیا یقین دہانی کرائی جاسکتی تھی کہ وہ امن پسند ہیں اور صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر ڈٹے ہوئے ہیںکہ صاف شفاف اور فوری الیکشن کی تاریخ دی جائے۔