• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت حال ہی میں ریٹائر ہونے والے وفاقی وزارتِ صحت کے اعلیٰ ترین بیوروکریٹ کے ساتھ موجود تھا جو مجھے تحریکِ انصاف کی حکومت میں صحت انصاف کارڈ پروگرام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے منفی پہلوئوں سے آگاہ کررہے تھے ،وہ بتارہے تھے کہ اب تک وفاقی و صوبائی حکومتیں صحت انصاف کارڈ پر چار سو ارب روپے خرچ کرچکی ہیں جو پاکستان جیسے غریب ملک کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے ،جس کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوئے جب کہ کرپشن کا ایک الگ راستہ کھل چکا ہے ۔ریٹائرڈ سرکاری افسر کے مطابق صحت انصاف کارڈ رکھنے والا ہر خاندان سالانہ دس لاکھ روپے تک کا علاج کسی بھی سرکاری یا نجی اسپتال سے کراسکتا ہے جبکہ ہر صوبے کی حکومت صحت انصاف کارڈ کی مد میں انشورنس کمپنی کو فی خاندان سترہ سو روپے ماہانہ ادا کرنے کی پابند ہوگی ، اس حکومتی اقدام سے پنجاب اور کے پی میں پرائیوٹ اسپتالوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے جب کہ اس نظام میں ٹرانسپیرنسی بھی نہ ہونے کے برابر ہے یعنی کوئی پرائیوٹ اسپتال کسی بھی شخص کے صحت انصاف کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے علاج کے جعلی بل بنا کر انشورنس کمپنی سے رقم وصول کرسکتا ہے جس کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے ، جب کہ حکومت اتنی بھاری رقم یعنی چار سو ارب روپے سالانہ اپنا صحت کا انفر اسٹرکچربہتر بنانے کے بجائے انشورنس کی ادائیگی پر خرچ کررہی ہے یہ عمل حکومت کو سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے لیکن ملکی صحت کے نظام کےلئے زہر قاتل ہے کیونکہ ابھی جب کہ صحت انصاف کارڈ کا پروگرام پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا ، اس میں کرپشن کی شکایات منظر عام پر آنے لگی ہیں ،وزارت صحت کے ریٹائرڈ سرکاری افسر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر بولے کہ اس وقت پاکستان میں پانچ سو بیڈ کا ایک جدید ترین اسپتال پانچ ارب میں باآسانی تیار ہوجاتا ہے لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنی بڑی رقم جو حکومت اپنے سیاسی فائدے کے لئےسالانہ انشورنس کمپنیوں کو ادا کررہی ہے اتنی رقم میں تو ملک کے دور دراز علاقوں میں سو کے قریب پانچ سو بیڈ کے جدید ترین اسپتال قائم ہوجاتے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور وہاں کے غریب افراد کو علاج معالجے کے لئے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر اور ہزاروں روپے خرچ کرکے شہروں کے اسپتال نہ جانا پڑتا۔ ان ہی علاقوں میں اگرپانچ پانچ سو بیڈ کے جدید اسپتال قائم ہوجاتے تو نہ صرف ملک میں صحت کا انفر اسٹرکچر بہتر ہوجاتا بلکہ ہزاروں ڈاکٹروں ، نرسوں اور ہیلتھ ورکرز کو روزگار بھی میسر آجاتا ، لیکن سابقہ حکومت نے صحت کارڈ کے نام پر سیاسی فائدے کو ترجیح دی ،مذکورہ افسر کے مطابق حال ہی میں گجرانوالہ میں پانچ سو بیڈ کا جدید ترین اسپتال سرکاری سطح پر قائم کیا گیا ہے جس میں دنیا بھر سے جدید ترین مشینری منگوائی گئی ہے ، اس ہسپتال کی تعمیر سے ڈیڑھ سو سے زیادہ ڈاکٹرو ں سمیت تین ہزار افراد کو روزگار بھی حاصل ہواہے جب کہ یہاں سالانہ لاکھوں افراد کوصحت کی سہولت بھی مفت فراہم کی جائے گی اور اس پورے اسپتال کی تعمیر میں حکومت کے پانچ ارب روپے خرچ ہوئے ہیں ، یعنی ایک اندازے کے مطابق سو بیڈ کے جدید اسپتال کے قیام پر حکومت کے ایک ارب روپے خرچ ہوتے اور سینکڑوں طبی ماہرین کو ملازمت کے مواقع بھی حاصل ہوتے ، تو چار سو ارب روپے کی خطیر رقم سے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں سو بیڈ کے نہ صرف چار سو اسپتال قائم ہوجاتے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں روزگار بھی پیدا ہوتا اور لاکھوں افراد کو ان کے گھروں کے قریب علاج معالجے کی سہولتیں بھی میسر آجاتیں ، ایک دور دراز علاقے کا غریب انسان صحت کارڈ ہونے کے باوجود اپنی فیملی کے بیمار فرد کو اپنی غربت کے سبب شہر تک لانے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا اسے علاج و معالجے کی سہولتیں اس کے گھر کے نزدیک ہی چاہئیں ،بہر حال فیصلہ اب موجود ہ حکومت کو کرنا ہے کہ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے اسی طرح عوام کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے اور سالانہ چار سو ارب روپے اس مد میں انشورنس کمپنیوں کو ادا کرنے ہیں یا اتنی بڑی رقم سے پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کاجال پھیلا کر غریبوں کو ان کے گھر کے قریب صحت کی مفت سہولتیں مہیا کرکے ان کی دعائیں لینی ہیں ۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں ہر روز ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ رہتا ہے، وہاں حکومت چار سو ارب روپے سالانہ صحت انصاف کارڈ کی مد میں انشورنس کمپنیوں کو ادا کرکے کتنا دانش مندانہ فیصلہ کررہی ہے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟

تازہ ترین