سوال، جن کے جواب نہیں ملتے

November 29, 2022

ایک اچھی فلم آپ کب تک اور کتنی مرتبہ دیکھ سکتے ہیں؟ کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ فلم اچھی نہیں ہوتی،مگر کچھ دیکھنے والوں کے لئےفلاپ یعنی ناکام فلم میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ بار بار ناکام فلم دیکھتے ہیں اور ناکام فلم سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں، کامیاب اور ناکام فلم سے حظ اٹھانے والوں کو خود چل کر سینما ہائوس جانا پڑتا ہے ۔ سینما ہال مع اچھی یا بری فلم کے خو د چل کر حظ اٹھانے والوں تک نہیں آتا۔ عام طور پر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کسی بندے کے حالات اس قدر دگرگوں بنا دیے جائیں کہ وہ فلم دیکھنے پر مجبور ہوجائے، مگر کبھی کبھی حالات اس قدر تنگ کردئیے جاتے ہیںکہ آپ فلم دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آپ کیلئےاتنی سی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جاتی کہ آپ بہانے بناکر فلم برداشت کرنے کے عذاب سے اپنی جان چھڑاسکیں۔ آپ کیلئےچھپنے کی گنجائش تک نہیںچھوڑی جاتی۔آپ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ منحوس فلم دیکھنے کا عذاب آپ کے مقدرمیں لکھ دیاگیا ہے۔ یہ چھوٹی سی تمہید آپ کو مبالغہ آمیز لگ رہی ہوگی۔ مگر یقین جانیے، زندگی میں کبھی نہ کبھی ہم سب کو ایسی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے جس کا ہم نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا ہوتا ۔

میں ایسی پر یکشا، پرکھ، امتحان سے گزر چکا ہوں، اور اب بھی گزررہا ہوں۔میں آپ کو حیران کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔آپ بھی میری طرح مجبور ہوکر چھبیس برس سے ایک ہی فلم صبح شام دیکھ رہے ہیں۔ میں انیس سو سینتالیس سے لگاتار ایک انتہائی بور فلم دیکھ رہا ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈرائونی ، ہیبت ناک واردات ہمارے وجود کو جھنجھوڑ کررکھ دیتی ہے۔ اب تو ایسی وارداتوں کی لمبی چوڑی فہرست ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ واردات کا معمہ حل کرنے کے لئے طرح طرح کی کھوجی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، مگر پچھلے 75 برسوں میں کھوجیوں کی کوئی ٹیم کسی ایک واردات کا معمہ حل کرنےمیں کامیاب ہونے سے کوسوں دوررہنے کے بعد اپنا وجود ، نام ونشان کھو بیٹھتی ہے۔ ایک ہیبت ناک واردات کی مثال دے رہا ہوں۔ ذرا غور سے سنیے گا۔ ذرا سااحساس رکھنے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔

آپ نے انیس سوسینتالیس کے بعد جنم لیا ہے، یا پھر دوہزار سات میں جنم لیا ہے، نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کا نام ضرور سنا ہوگا۔ آپ جس ملک میں رہتے ہیں اور جہاں پر آپ مطلق العنان کی طرح جائز اور ناجائز آزادی کے مزے اڑاتے ہیں، اس ملک کا نام پاکستان ہے۔ملک پاکستان جس کے آپ باسی ہیں، خود بخود نہیں بنا تھا۔ یہ ملک بنایا گیاتھا۔ اس ملک کو بنانے والے کا نام قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ لاغرصحت کے باوجود انہوں نے برسوں تک انگریز سے گفت وشنید اور بحث مباحثے کئے تھے۔انہوں نے منطقی دلائل سے انگریز کو ہندوستان کے بٹوارے پر آمادہ کرلیا تھا۔ میں تاریخ دان یا تاریخ نویس نہیں ہوں۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں۔ مسلم لیگ کی تاریخ پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بغیر پاکستان کا عالم وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔

برسوں کی تگ ودونے قائد اعظم کی تپ دق کی تکلیف بڑھا دی تھی۔ تب پاکستان کو عالم وجود میں آئے ہوئے ایک سال اور ایک مہینے کا عرصہ گزر چکا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح، پاکستان کے بانی، پاکستان کے گورنر جنرل کوئٹہ کے قریب زیارت میں زیرعلاج تھے۔ انہیں آرام کی سخت ضرورت تھی۔ دن رات،ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود وہ لگاتار لکھتے رہتے تھے۔ ان کے اس دنیا سے رُخصت ہونے کے بعد آج تک وہ لکھے ہوئے اوراق کسی نے نہیں دیکھے۔ بہرحال گیارہ ستمبر کو اچانک طبیعت خراب ہوجانے کے بعد قائد اعظم کو کوئٹہ سے کراچی لایاگیا۔ جہاز ماڑی پور ائیربیس پر اترا تھا۔ قائد اعظم کو ایک رواجی ایمبولینس میں دوپہر کے وقت گورنر ہائوس روانہ کیاگیا۔ ماڑی پوری روڈ سے گزرتے ہوئے، ڈرائیور نے یہ بتاتے ہوئے، کراچی میں سب سے بڑے مہاجر کیمپ کے سامنے، روڈ کے دوسری طرف گاڑی روک دی کہ گاڑی میں کچھ خرابی ہوگئی ہے۔ اس نکتہ سے فقیر کے ذہن میں پچھلے چوہتر برس سے خدشات سے بھرے ہوئے سوال آج تک جواب کی خاطر تلاطم برپا کئےہوئے ہیں ۔جواب نہیں مل پاتے۔

میرا پہلا سوال ہے کہ قائد اعظم کو ایک عام رواجی ایمبولینس میں ماڑی پور ائیربیس سے گورنر ہائوس تک لے جانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ میرا دوسرا سوال ہے کہ ڈرائیور کو عین مہاجر کیمپ کے سامنے ایمبولینس کو انجن میں خرابی کا بہانہ بناکر روکنے کی ہدایت کس نے کی تھی؟ مہاجر کیمپ میں مہاجرین کی حالت بے انتہا خراب تھی۔ کچھ مہاجرین کے اعضا کٹے ہوئے تھے۔ کوئی بازوئوں سے اور کوئی ٹانگوں سے محروم تھا۔نہ ڈاکٹر تھے۔نہ دیکھ بھال اور نہ ہی کھانے پینے کا بندوبست کرنے کے لئے عملہ تھا۔ کیمپ کے تمام لوگ غصہ سے بھرے ہوئے تھے۔مجھے لگتا ہے کہ ہدایات دینے والے نے یہ سوچ کر ایمبولینس کو مہاجر کیمپ کے سامنے روکنے کا منصوبہ بنا یاتھا کہ غصہ سے بھرے ہوئے مہاجر قائد اعظم کی ایمبولینس پرٹوٹ پڑیں گے، مگر اتفاق سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میرا تیسرا سوال ہے کہ ملک کے بنانےوالے، بانی، گورنر جنرل کو بغیر پروٹوکول کے ائیرپورٹ سے گورنر ہائوس کے لئے روانہ کردیاگیا تھا۔کیا ایمبولینس کے آگے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی؟ ایسے کیوں کر ممکن تھا؟ قائداعظم کو کسی دوسری گاڑی یا ایمبولینس میں شفٹ کرنا کیا بہت بڑا مسئلہ تھا؟ میرا چوتھا سوال ہے کہ اس روز لیاقت علی خان اور ان کے وزرا کہاں تھے؟

دوڈھائی گھنٹے قائد اعظم کوعذاب میں مبتلا کرنے کے بعد گورنر ہائوس لایا گیا ۔ رات کے دس بج کر بیس منٹ پر قائد اعظم یہ دنیا چھوڑ کرچلے گئے۔ میرا پانچواں اور آخری سوال ہے کہ کیا اس سانحے پر سرکار نے کبھی کوئی کمیٹی بنائی تھی؟اگر بنائی تھی، تواس کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کہاں ہے؟