ہوش کے ناخن اب بھی نہ لئے تو کب؟

December 04, 2022

بحران ایسا کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ سیاسی انتشار ہو، معاشی ابتلا یا پھر ریاستی بندوبست سب بیک وقت الجھاؤ میں ہیں۔ اور سرا ہاتھ نہیں آرہا کہ ماضی کی سب تدبیریں اُلٹ پلٹ ہوگئیں، نہ پرانے نسخے کسی کام کے رہے اور نہ ایسی کوئی سوجھ جو نئی راہ سجھا دے۔ غرض ہر کوئی اپنی اپنی دھن کی بے فکری میں مگن اور مارنے مرنے پہ تیار۔ اب اگر عمران خان دیواروں سے سر ٹکرانے کی بجائے ساتھ بیٹھنے پہ مائل ہورہے ہیں تو وقت پہ انتخابات کی ضد کوئی کس برتے پہ کرے جب معیشت کی کوئی کل سیدھی ہونے کی امید نہیں۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عدم اعتماد کی کامیابی گلے پڑگئی ہے اور وہ گلے پڑا ڈھول کب تک بجا پائیں گی۔ سیاسی حریف اپنی اپنی چالیں چلتے نڈھال ہوئے جاتے ہیں مگر سیاسی اناؤں کی اسیری میں بدحال مملکت کو درپیش بحران ایسا لاینحل ہے کہ سب کی سِٹی گم ہوئی لگتی ہے۔ سیاسی سرکس کا تماشہ ایسا لگا ہے کہ حقیقی وجودی بحران اور معاشی دیوالیہ سب کو لپیٹنے جارہا ہے اور المیہ ہے کہ کسی کو فکر لاحق نہیں۔ سیاسی بحران تو کوئی بڑا معمہ نہیں، اگر عمران خان انا کی بلند ترین چوٹی سے نیچے اُتر آئیں اور اتحادی حکومت کسی بڑے معجزے کی اُمید ترک کردے تو ایک عملی حل نکل سکتا ہے۔ انتخابات اکتوبر میں نہ سہی، کچھ پہلے کرلینے میں کیا حرج ہے۔ ویسے بھی اگلے برس جون میں بجٹ پیش کرنے کی اتحادی حکومت متحمل نہیں ہوسکتی، یہ بلا عبوری حکومت کے سر منڈھ دی جائے تو اسی میں سب کی عافیت ہے۔ کیا عمران خان مارچ /اپریل میں انتخابات کرواکر، کامیابی کی صورت میں اگلا بجٹ پیش کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں جو اتنا جلد انتخابات پہ اصرار کررہے ہیں۔ میرا وجدان ہے کہ درمیانی مدت پہ اتفاق ہوسکتا ہے۔ مئی کے آخر تک سب اسمبلیاں اتفاق رائے سے تحلیل کرکے جون میں 90 روزہ عبوری حکومت پہ اتفاق کرلیا جائے جو اگست میں انتخابات کا انعقاد کروادے۔ فقط انتخابات کی تاریخ پہ اتفاق کافی نہیں ہوگا۔ آزادانہ و منصفانہ انتخابات پہ سبھی جماعتوں میں اتفاق رائے ضروری ہوگا تاکہ انتخابات کے نتائج پہ نیا سیاسی جھگڑا نہ کھڑا ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی و سلامتی کی پالیسیوں پہ بھی کڑوی گولیاں کھانے پہ سب کو تیار ہونا ہوگا۔ جس معاشی ناپائیداری کی وارننگ ایک عرصہ سے ان کالموں میں دی جارہی تھی، وہ بدقسمتی سے پورے کروفر کے ساتھ آپہنچا ہے اور اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اس کیلئے ایمرجنسی اقدامات کے ساتھ ساتھ درمیانی اور لمبی مدت کے حقیقی اصلاحی اقدات اور منصوبہ سازی کی ضرورت ہے۔ پھر بھی اگلی دوچار حکومتیں معاشی بحران کو سنبھالنے میں خرچ ہوتی نظر آرہی ہیں۔

سوال اور چیلنجز بڑے ہیں اور حل دشوار اور پیچیدہ تر۔ پہلا بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان قومی سلامتی کی عسکریت پسند ریاست کے طور پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالرز ہیں اور بھارت کے 600 ارب ڈالرز سے اوپر ہیں۔ افغان جہاد اسٹرٹیجک گیرائی کی بجائے گہری کھائی بن گیا ہے۔ اب تو افغان طالبان نے پاکستان کے پورے شمال مغربی علاقے کے ساتھ ساتھ کشمیر تک افغان راجدھانی کے ابدالی خواب کا نقشہ بھی شائع کردیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان اور برصغیر کی داعش نے غزوہ ہند کا آغاز پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے جہاد سے شروع کردیا ہے، جبکہ جاری دفاعی بجٹ کے لئے قرض ملنے کی اُمید کم ہی ہے اور اگر کچھ ملا بھی تو کن شرائط پر؟ سب سے پہلے تو دفاعی کمر کسنے کی ضرورت ہوگی اور طاقتور اس پر راضی ہوں گے بھی یا نہیں۔ ملک کے اندر جاری شورشوں کا سیاسی حل تلاش نہ کیا گیا تو پھر بیرونی طاقتوں کے کھل کھیلنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ رہا ہائبرڈ سیاسی نظام تو اس کا خمیازہ اس کے موجدین بھگت چکے، اس کی نوک پلک سنوارنے کی بجائے سیاست سے کنارہ کشی کا اداراتی تقاضہ بڑا چیلنج ہوگا۔ شکر ہے کہ نئے آرمی چیف صفحہ اول سے غائب ہیں اور آئی ایس پی آر نئی تعیناتیوں پہ بھی خاموش ہے۔ فوج کو سول معاملات سے علیحدہ کرنے اور کارپوریٹ دائرہ عمل کو محدود تر کرنے میں ہی سول سوسائٹی کی عافیت ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج پاورا سٹرکچر سیاسی معیشت کو بدلنے اور اسے آئین سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ریاست کے اندر متوازی ریاست کو خیر باد کہنے کیلئے اداراتی اصلاحات کی ضرورت ہوگی جس کے لئے پہل افواج پاکستان ہی کو کرنی ہوگی۔ تیسرا بڑا چیلنج دست نگری، مفت خوری و کرایہ خوری اور قرض خواہی کو خیر باد کہتے ہوئے پیداواری معیشت کے ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ ایسی برآمدات ،جو درآمدات پہ انحصار کریں ،کے ہوتے ہوئے اور اعلیٰ قدر کی برآمدات اور انکا تنوع بڑھائے بنا کرنٹ اور بجٹ خسارہ کم نہ ہوگا اور نمو کے ساتھ خساروں کے چکر سے نکلنا محال ہوگا۔ ہماری زراعت فرسودہ جاگیردارانہ رشتوں اور دقیانوسی طرز پیداوار کے ہوتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتی، نہ ہی کرایہ خوری معاشی کاروبار کو آگے بڑھنے دے گی۔ جدید سائنسی و تکنیکی بنیاد کے بغیر صنعتی ترقی بھی ماند رہے گی۔ جبکہ قرض خوری اور پبلک سیکٹر کی بدحالی سے جان خلاصی کیلئےبڑی سخت گیر پالیسی درکار ہوگی۔ اصل مرکز عوام کی ترقی اور سلامتی ہے جس کیلئے سماجی شعبہ جات کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم و ہنر مندی کے فروغ کے بغیر بے کار نوجوانوں کا جم غفیر طوائف الملوکی کا ایندھن تو بن سکتا ہے کار آمد نہیں ہوسکتا۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ ریاست اور اس کے تینوں ستونوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

آخری سوال اور چیلنج جو شاید پرنسپل تضاد ہے وہ ہے سول ملٹری تعلقات جس کا آئین کی روح کے مطابق از سر نو تعین ضروری ہے۔ اس میں پہلی شرط تو یہ ہے کہ افواج ماسوا دفاع کے تمام معاملات سے خود کو سختی سے علیحدہ کریں اور دوسری شرط یہ ہے کہ سیاستدان افواج کو سیاست میں ملوث کرنے کی بجائے اپنے معاملات آپس میں افہام و تفہیم سے حل کرنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی و سماجی قوتوں کے مابین ایک نئے میثاق کی بنیاد ڈالیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں جو میثاق جمہوریت ہوا اور جس جمہوری دور کا آغاز ہوا تھا، اسے ہائبرڈ سیاسی نظام سے اُلٹ دیا گیا ۔ اب ہائبرڈ نظام کا تجربہ بری طرح سے فیل ہونے پر پھر سے جمہوری و آئینی راہ پہ پلٹنا ہوگا۔ ورنہ بحران در بحران ہمارا مقدر رہے گا اور جانے یہ کہاں جاکر ختم ہو۔ ہوش کے ناخن اب بھی نہ لئے تو کب؟