بیویاں

December 04, 2022

دنیا میں سب سے زیادہ لطائف جس چیز پر سنائے جاتے ہیں، وہ میاں بیوی کا رشتہ ہے۔ خصوصاً بیوی جس طرح شوہر کو اس کی حدود میں رکھتی ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ نی اینڈرتھل اور ہومو اریکٹس سمیت باقی دو ٹانگوں والی اسپیشیز میں کیا ہوتا تھا۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ مرد عموماً جب آپس میں باتیں کرتے ہیں تو بیویوں کے ہاتھوں اپنی گوشمالی کا ذکر کرتے ہوئے مسکرادیتے ہیں۔ میرے والد کے ایک دوست ایک مرتبہ کہنے لگے کہ آفس سے پانچ بجے چھٹی ہوتی ہے۔ پانچ تیس پر میں نے ہر قیمت گھر حاضری لگوانا ہوتی ہے ورنہ...! زیادہ تر لطیفے اس بات پہ بنتے ہیں کہ غلطی ہمیشہ شوہر کی ہوتی ہے۔ دوسری طرف بیویوں کی ایک عظیم اکثریت کو سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ مظلوم تو درحقیقت وہ ہیں۔ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے استاد جاوید حسین صاحب ایک دن لیکچر کے دوران فرمانے لگے کہ یہاں تو میں استاد ہوں۔ گھر میں کوئی اور استاد ہے۔ ایک بڑے مشہور پیر صاحب ایک دن خواتین کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے بولے: اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکو۔ سب یہاں بیویوں والے ہیں (سب کی چھترول ہوتی ہے)۔ مریدوں نے ایک قہقہہ لگایا۔ فرمانے لگے کہ شیطان اتنی بہادری سے آدمی کو بے عزت نہیں کر سکتا، جیسے بیویاں کرتی ہیں۔ دنیا میں مرد اچھے بھلے ملک، چوہدری اور پیر بن کے پھرتے ہیں۔ گھر جاتے ہیں تو بیویوں سے جوتیاں کھاتے ہیں۔ مرید شرمندہ ہو کر ہنستے رہے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ کالم نگار حضرات دنیا میں بڑے مفکر بنے پھرتے ہیں۔ عالمی مسائل کے حل پیش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان کی بیویوں کے خیالات عموماً یہ ہوتے ہیں کہ لکھتے اور بولتے تو بڑی اچھی اچھی باتیں ہیں، اندر سے دوغلے ہیں۔ ان کی بیویاں یا تو ان کے کالم پڑھنا چھوڑ دیتی ہیں کہ اس بیچارے نے کیا لکھا ہوگا۔اسے آتا ہی کیاہے۔ بعض البتہ عقابی نگاہ سے پڑھتی ہیں تاکہ بعد میں اعتراضات پیش کیے جا سکیں کہ فلاں فقرہ لکھتے ہوئے تمہارے دماغ میں کیا تھا؟ کالم نگار بیچارہ اس یک رکنی گھریلو ادارتی بورڈ سے ڈرتے ہو ئے ایک ایک لفظ تول کر لکھتا ہے۔ ہماری والدہ نے ہمیشہ ہمارے والد کی عزت کی۔ ایک بار مگر والد صاحب ریاضت پہ زور دیتے ہوئے کہنے لگے کہ جوانی میں ایسا تو کئی بار ہوا کہ میں نے دفتر میں کام شروع کیا تو چوبیس گھنٹے لگاتار کام کرتا رہا۔ جب وہ تشریف لے گئے تو والدہ کہنے لگیں:شادی کے بعد میں نے زیادہ تر انہیں سوتے ہوئے پایا، بیس بیس گھنٹے سوتے تھے۔ میری بیوی ایک بار اپنا کوئی مسئلہ میرے گوش گزار کر رہی تھی۔ میں نے کہا کہ دنیا میں ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مسائل تو ہوتے ہی ہیں۔ جل کر بولی، میں اپنا مسئلہ بتاؤں تو آپ عورتوں کی طرح اپنے دکھ سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ چند سیکنڈ کے لیے میں لاجواب ہو گیا۔ پھر میں نے اس سے کہا: گھر میں جب یکے بعد دیگرے دو بار آگ لگی تو مردوں کی طرح کس نے بجھائی۔ تم تو فوراًباہر فرار ہو گئی تھیں۔ بیویاں عموماً اپنی رائے پیش کرنے میں جلدی کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ ایک گاڑی ہمارے قریب سے لہراتی ہوئی گزری۔ میری بیوی کی ایک بہن کہنے لگی: اس گاڑی میں کوئی خرابی ہو گئی ہے۔ دوسری بولی: ہاں ٹیڑھی ٹیڑھی چل رہی ہے۔ میری بیوی کچھ حساب لگا رہی تھی۔ اب وہ سیدھی ہو کر بولی: اس گاڑی کا ٹائر پھٹنے والا ہے۔ اس صورتِ حال سے میں نہایت لطف اندوز ہوا۔ حقیقت صرف اتنی سی تھی کہ گاڑی والا جان بوجھ کر مستی میں گاڑی کو لہرا رہا تھا۔ چمپنزی والا واقعہ انہی دنوں پیش آیا۔ چمپنزی نے پنجرے سے ہاتھ باہر نکالا اور پھیلائے رکھا۔ میں نے چپس کا پیکٹ اسے دے دیا۔ کچھ دیر بعد تین بچوں کے ساتھ ایک عورت وہاں آئی۔ اس کے ہاتھ میں بھی کوئی کھانے والی چیز تھی۔ چمپنزی کافی دیر ہاتھ پھیلا کر بیٹھا رہامگر اس نے نہیں دیا۔ اب وہ کھڑا ہوا اور اس نے زور سے اس خاتو ن کی طرف تھوک دیا۔ایک بچے نے چیخ کر دور کھڑے اپنے باپ کو بلایا اور اسے بتایا کہ چمپنزی نے ماں کی طرف تھوکاہے۔ وہ الٹا حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے چمپنزی کو دیکھنے لگا۔ کوئی تو ہے، جس میں اتنی جرات ہے کہ اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے یاد آیا، اسحٰق ڈار نے ایک بار یہ کہا تھا: ہم آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مذاکرات کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیویاں نہ ہوتیں تو زندگی نہایت خشک ہوتی۔ ایسی مخلوقات دنیا میں موجود ہیں، جو خود ہی اپنے آپ کو بارآور کر کے خود ہی اولاد پیدا کر لیتی ہیں۔ زندگی کی ابتدا ایسے ہی ہوئی تھی۔ مرد و زن کی یہ دو جنسیں زندگی کو رنگین بنانے کے لیے پیدا کی گئی تھیں۔ اب تو خیر دنیا میں ایسے لوگوں کا غلبہ ہے، جو کہتے ہیں کہ دو مرد اگر ایک دوسرے کو جنسی تلذذ پہنچانا چاہیں، دو عورتیں اگر شادی کرنا چاہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بیوی کے حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے انہوں نے حال یہ کر دیا ہے کہ بیوی شوہر کو جتنا چاہے، دبا سکتی ہے۔ مردوں نے اس کا حل یہ نکالاہے کہ شادی کرناہی چھوڑدی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)