نئے سپہ سالار کی آمد، چیلنجز اور قومی قیادت

December 07, 2022

وطن عزیز پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں سپہ سالار قوم کی تقرری کے حوالے سے اس طرح کی ہیجانی کیفیت کبھی نہیں دیکھنے میں آئی جس طرح کی کیفیت گزشتہ چند ماہ کے دوران پیدا کی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ نئے سپہ سالار کا تقرر ہونا تھا۔ اس تقرری سے قبل ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی جس میں افواہ سازی ،اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ وقت مقررہ پر وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے نئے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر اور نئے جوائنٹ چیف ساحر شمشاد مرزا کا تقرر کر دیا۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے چھ سالہ دور میں ایسے بہت سے اچھے امور بھی سر انجام دئیے گئے جو قابل فخر اور قابل تعریف ہیں۔ ان میں’’ پیغام پاکستان‘‘ جیسی دستاویزہے جس کو آئین پاکستان کے بعد سب سے متفقہ دستاویز کہا جا رہا ہے۔ اس دستاویز کو ایک میثاق کی شکل دی گئی جو ملک کے تمام مذہبی، سیاسی، قائدین اور علماء و مشائخ کے درمیان انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کیلئے کیا گیا۔ پیغام پاکستان مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جس کی تحسین پوری دنیا میں کی جا رہی ہے اور اس پر امام کعبہ، شیخ الازہر سمیت عالم اسلام کے اہم ترین قائدین نہ صرف دستخط کر چکے ہیں بلکہ اس کی تحسین بھی کر چکے ہیں۔ پیغام پاکستان جیسی دستاویز کے بعد الحمدللہ پاکستان کے حوالے سے عالمی دنیا کا مؤقف تبدیل ہوا ، وہ جو پاکستان پر دہشت گردی اور انتہاپسندی پھیلانے کے الزامات لگاتے تھے، وہ پاکستانی فوج اور سلامتی کے اداروں کی امن کیلئے خدمات کے معترف ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کو FATF (فیٹف) کی گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے جس طرح جی ایچ کیو میں ایک سیل قائم کیا اور اس کے نتیجہ میں الحمدللہ آج پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے۔ مدارس عربیہ میں جدید تعلیم اور خارجہ امور کے حوالے سے جنرل قمرجاوید باجوہ کا کردار اور محنت فراموش نہیں کی جا سکتی، انہوں نے ملک کے اند ربین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی اور بیرونی دنیا میں پاکستان کے خارجہ امور کی اصلاح میں یہ خدمات سر انجام دیں جس کا اعتراف خود عمرانخان بھی کرتے رہے ہیں لیکن چونکہ اب جنرل باجوہ رخصت ہو گئے اور عمران خان اور ان کی جماعت کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ اب جنرل باجوہ ان کیلئے کوئی مزید سہولت کاری نہیں کر سکتے تو انہو ں نے ایک تنقیدی سلسلہ شروع کیا جو، افسوسناک امر ہے۔ ایک پلاننگ کے تحت پاکستان کی فوج، سپہ سالار اور سلامتی کے ادارے کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے اوپر ایک مہم شروع کرنے کی پلاننگ کی گئی تو ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں حقائق کو قوم کے سامنے کرنا پڑا۔ اس پریس کانفرنس میں بیان کیے گئے حقائق سے آج تک کوئی انکار نہ کر سکا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد نئے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر اپنا منصب سنبھال چکے ہیں اور یہ بات پاکستان کیلئے قابل فخرہے کہ پاکستانی فوج کا سپہ سالار ایک حافظ قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی آل سے ہے۔ جنرل عاصم منیر کیلئے سب سے بڑ اچیلنج وطن عزیز پاکستان کی وہ صورتحال ہے جس میں ایک طرف پاکستان دشمن قوتیں پاکستانی قوم اور فوج کے درمیان تقسیم پیدا کرنا چاہتی ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی ابتر معاشی اور اقتصادی صورتحال ہے۔30ملین سیلاب زدہ پاکستانی امداد کے منتظر ہیں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف خارجہ محاذ پر اپنی ٹیم کے ساتھ بہت محنت کر رہے ہیں لیکن اس میں سپہ سالار کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔نئے سپہ سالار نے اپنا پہلا دورہ کنٹرول لائن کا کیا اور ان کے پہلے بیان نے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو واضح کر دیا ہے اور وہ تمام غلط فہمیاں اور پروپیگنڈہ دم توڑ گیا ہے جو گزشتہ چند ماہ سے کیا جا رہا تھا۔ جنرل عاصم منیر کا کنٹرول لائن پر خطاب قومی امنگوں کا ترجمان ہے۔ اسی طرح افغانستان کی صورتحال اور تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے سیز فائر کے خاتمے کا اعلان کے بعد کی صورتحال بھی نئے سپہ سالار کے سامنے ہے۔سیاسی میدان میں شدت اور نفرت عروج پر ہے۔ سیاسی قوتیں آپس میں بات چیت کیلئے تیار نہیں ہیں، بد تمیزی، گالی گلوچ عروج پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے اور ایک نئی شروعات کا آغاز کیا جائے۔ سیاسی قیادت طعنہ زنی اور نفرت اور عدم برداشت کے رویے سے باہر آئے، مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے اور پاکستان کا سوچے۔ پاک فوج اور سلامتی کے اداروں کے خلاف دانستہ یا نا دانستہ طور پر چلائی جانے والی مہم بند کی جائے۔ ملک میں معاشی اقتصادی، معاشرتی استحکام، انتخابی اور عدالتی اصلاحات کیلئے ایک میثاق پاکستان کیا جائے۔ جس کی دعوت وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں بطور قائد حزب اختلاف کو دی تھی۔ اگر عمران خان صاحب کا خیال ہے کہ ان کو انتخابات دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے بغیر مل جائیں گے تو ان کو اس تصور سے باہر آ جانا چاہیے۔ تحریک انصاف بلا شبہ ایک بڑی جماعت ہے لیکن پی ڈی ایم اور دیگر جماعتیں بھی پاکستان کی ہی جماعتیں ہیں۔ الیکشن سیاسی جماعتوں نے طے کرنا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے نہیں اور یہ بات جتنی جلدی عمران خان اور ان کی جماعت کو سمجھ آ جائے بہتر ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو اس سارے سیاسی عمل سے علیحدہ کر چکی ہے۔