خدا جانے کیا

January 22, 2023

پی ڈی ایم کا عظیم سیاسی اتحاد تحریکِ انصاف کو سیاسی موت کی نیند سلا سکتاہے؟پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جس کے اقتدار میں آنے کی بات کرنے والے کاایک عشرہ قبل مذاق اڑایا جاتا تھا۔یہ کہا جاتا تھا کہ دوجماعتی نظام میں تیسری جماعت کی گنجائش نہیں۔ شہباز شریف زرداری صاحب کی سوئس بینکوں میں پڑی دولت نکلوانے کا عہد کیا کرتے تھے۔ساتھ وہ ایک اور انکشاف بھی کیا کرتےتھے: عمران خان کو اگر ووٹ دیا توایک بار پھر زرداری کی حکومت آجائے گی۔ وقت کا خوفناک دھاراکیسے غلط فہمیوں کی دھول اڑا لے جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج اسی تحریکِ انصاف کے خلاف دو سب سے بڑی پارٹیوں سمیت ایک درجن سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تحریکِ انصاف حاجیوں کی جماعت ہے یا اس کے لیڈر دودھ کے دھلے ہیں۔ ایک عشرہ قبل خان صاحب کو کسی شہ دماغ نے آموختہ یہ پڑھایا تھا کہ الیکٹ ایبلز کو جماعت میں شامل کرتے ہوئے اگر کرپشن کو انہوں نے ایشو بنایا تو پھر کبھی وہ اقتدار میں نہیں آسکیں گے۔خان صاحب کو اگر اطلاع ملے کہ ان کے انتہائی قریبی لوگ کرپشن میں شریک ہیں تووہ الٹا اطلاع دینے والے پر برہم ہوجاتے ہیں۔ بعد ازاں اس کا خمیازہ انہوں نے بری طرح بھگتا۔خان صاحب کی معصومیت کا عالم یہ ہے کہ اپنے قریب ترین لوگوں کو دل و جان سے اب بھی نیک سمجھتے ہیں؛حالانکہ انہی کی وجہ سے زندگی میں پہلی بار ان کا مالیاتی اسکینڈل بنا۔اب مگر صورتِ حال یہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتوں کا اتحاد تحریکِ انصاف کے خلاف متحد ہے،سوائے ان کی سابق اتحادی جماعتِ اسلامی کے۔ جماعتِ اسلامی پہ تبصرہ کئے بغیر میں رہ نہیں سکتا۔ایک طویل عرصہ بعد جماعت نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کا سہرا سراج الحق سے زیادہ حافظ نعیم الرحمٰن کو جاتا ہے۔ جماعت کو آخری کامیابی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ملی تھی۔ وہ امریکہ مخالف نعروں پر کامیاب ہوئی تھی۔ بعد میں مگر مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہوئی، جنہیں بجا طور پر پرویز مشرف کی بی ٹیم کہا جاتا تھا۔بعد ازاں انتخابات میں جماعتِ اسلامی جوبری طرح ناکام ہوئی، وہ ایم ایم اے کی منافقت ہی کا نتیجہ تھا۔کراچی میں اب جماعت کی اصل کامیابی درحقیقت کہیں بڑی ہے کہ پیپلزپارٹی نے بے انتہا دھاندلی کی۔ اس وقت جو سیاسی صورتِ حال ہے کہ سیاست کے سارے مگر مچھ پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہیں توقدرتی طور پر جماعتِ اسلامی کا اتحاد تحریکِ انصاف کے ساتھ ہی بنتا ہے، بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کے۔ خدا جانے صالحین کو مگر یہ پٹی کس نے پڑھائی کہ پی ٹی آئی پہ تبرہ کر کے انہیں کچھ حاصل ہو سکتاہے؟جماعت کے لوگ دن رات خان صاحب میں کیڑے نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کویا تو کچھ کہتے ہی نہیں یا اگر کہنا پڑ ہی جائے تو صرف برائے وزنِ بیت۔2013ء سے 2018ء کے درمیان حالانکہ دونوں جماعتوں نے پختون خوا میں کامیاب اتحادی حکومت کی۔ سندھ میں کرپشن، نا اہلی اور بدانتظامی کی صورتِ حال انتہائی خوفناک ہے۔تحریکِ انصاف اگر درست حکمتِ عملی پہ گامزن ہوتی توالطاف حسین کی سیاسی موت کے بعد کراچی پہ راج کر رہی ہوتی۔ اب جماعتِ اسلامی کو ایک نادر موقع حاصل ہوا ہے۔ اپنے پتے اس نے اگرصحیح کھیلے تو ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کا بھی کراچی سے جنازہ اٹھایا جا سکتاہے۔ جماعت کو مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ناکام رہی تو یہ اس کی سیاسی زندگی کی آخری کامیابی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بجھتے ہوئے چراغ کی لو جیسے آخری دفعہ بھڑکتی ہے۔تحریکِ انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان جو جنگ جاری ہے، اس کا سب سے اہم پہلو آخر میں عرض کرتا ہوں۔ 2010ء میں شروع ہونے والی بہار عرب کے کئی ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی اور مظاہروں کے بعدامریکی پشت پناہی سے ترکی میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ ترکی کو سر سے پاؤں تک تبدیل کر دینے والے طیب اردوان کا خاندان اگرچہ کرپشن میں ملوث تھا لیکن سیاسی چالوں میں ان کا ثانی تو کوئی نہیں۔ کچھ عرصہ انہوں نے ان مظاہروں کو برداشت کیا۔ پھر یہ اعلان کیا کہ مخالفین اگر ان کے خلاف ہزاروں کا اجتماع کریں گے تو اردوان ان کے خلاف لاکھوں کا اجتماع منعقد کر کے دکھائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غبارے سے ہوانکل گئی۔ پی ٹی آئی میں بھی اگرچہ کرپٹ سیاسی لیڈروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن یہ کیسا ماجرا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے خلاف بارہ پارٹیاں یکجا ہو گئیں۔ اخلاقی شکست تو انہیں پہلے ہی ہو گئی۔ پھر بھی اس اتحاد نے کامیابی اگر حاصل کرنی ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کو شکستِ فاش سے دوچار کر دیا جائے۔ صورتِ حال مگر یہ ہے کہ پی ٹی آئی ”الیکشن الیکشن“ کی صدائیں بلند کر رہی ہے اور بارہ جماعتوں کا اتحاد اس سے بھاگ رہا ہے،الیکشن تو آخر ہو کر رہنے ہی ہیں۔ نون لیگ، پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کو چاہئے کہ وہ انتخابی حکمتِ عملی بنا کر میدان میں اتریں۔ اس وقت ایسی ہی صورتِ حال ہے کہ ایک پہلوان اکھاڑے میں اترا ہوا ہے اور اس کے مخالف بارہ پہلوانوں کا لشکر اکھاڑے کے باہر کھڑا امن و آشتی پہ زور دے رہا ہے۔ ضمنی الیکشن تحریکِ انصاف جیت رہی ہے۔ الیکشن کا نام سنتے ہی حکومتی اتحاد کو غش پڑجاتاہے۔ تیل مہنگا کرنے سمیت جو مشکل فیصلے تھے، وہ آخری سال تحریکِ انصاف کی حکومت گرا کے اپنے اوپر لے لئے۔ خدا جانے آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن جیسے شہ دماغ کیسی چالیں چل رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)