اسی عطّار کے لونڈے سے.....

January 22, 2023

میر تقی میرؔ نے آج سے کئی سال پہلے ایک شعر کہا تھا جو اب ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا،

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اس شعر کو اگرپاکستان کی آج کی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ شعر عمران خان کے طرزِ سیاست پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ پاکستان کی معیشت سیاست اور معاشرت کو تباہی کے کنارے پر پہنچانے والے عمران خان اور ان کے حامی انتہائی دیدہ دلیری سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ صرف عمران خان ہی پاکستان کو ڈیفالٹ اور تباہی کے خطرے سے بچا سکتا ہے۔ اور آج پاکستان جس خطرناک موڑ پر کھڑا ہے یہاں وہ صرف پی ڈی ایم کی وجہ سے پہنچا ہے جب کہ عمران خان کے پونے چار سالہ دور میں پاکستان انتہائی برق رفتاری سے ترقی کر رہا تھامگر پی ڈی ایم کی نو ماہ کی حکومت نے اس ’’ مبیّنہ ‘‘ ترقی کو تنزّلی میں تبدیل کر دیا ہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی اور جھوٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ عمران خان نے جب ایک انتہائی متنازعہ اور دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت سنبھالی تھی تو اس وقت پاکستان میں افراطِ زر کی شرح 3فیصد اور ترقی کی شرح یعنی جی ڈی پی 6فیصد کے قریب تھی ۔ ڈالر 120روپے اور پیٹرول تقریباََ 100روپے فی لیٹر تھا۔ اشیائے خورو نوش عام شخص کی پہنچ میں تھیں۔ آٹا 35روپے فی کلو، چینی 50روپے اور گھی 150روپےفی کلو تھا۔ پاکستان میں چین کے ساتھ سی پیک معاہدے کے نتیجے میں موٹر ویز اور سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔ سی پیک پر پوری رفتار سے کام ہو رہا تھا اور لگتا تھا کہ پاکستان بہت جلد ترقی پذیر ملکوں کی صف میں کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس کے بعد جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے معاملات اپنے کنٹرول میں رکھنے اور سیاستدانوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کےلئے ’’پروجیکٹ عمران‘‘شروع کیا۔ تاکہ عمران خان کی آڑ میں وہ پسِ پردہ اقتدار پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کرسکے۔ سیاست میںاس کی مداخلت شروع سے ہی رہی ہے۔ اور اب تووہ بھی اس کا برملااعتراف کرتے ہیں جیسا کہ جنرل باجوہ نے اپنی الوداعی تقریب میں یہ کہا کہ فوج سیاست میں غیر آئینی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار سابقہ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے ہر اول دستے اور محافظ کے طور پر تھا، جس کے عوض فوجی ڈکٹیٹر وں کو امریکہ کی مکمل سرپرستی اور مالی تعاون حاصل تھا۔ یہ مالی اور فوجی امداد اس کثرت سےفراہم کی گئی کہ ہر فوجی ڈکٹیٹر کے زمانے میں پاکستان کی جی ڈی پی 5سے زیادہ رہی ۔ اس سے نہ صرف وہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو کمزور کرتے رہے بلکہ آمریت پسندوں کے نئے نئے گروہوں کو بھی مضبوط کرتے رہے جنہوں نے ملک میں انتہا پسندی اور علیحدگی پرست قوتوں کو اس قدر تقویت دی کہ 71میں ملک دولخت ہوگیا۔ یہ بھی دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا کہ ایک ملک اپنے قیام کے صرف 23سال بعد ہی اپنے بڑے حصّے سے محروم ہوگیا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت بھی ملک پر ایک ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کی حکومت تھی۔ لیکن اس سانحے کے بعد بھی جمہوریت کشی کا یہ عمل نہ رُک سکا کیوں کہ سوویت یونین کے خلاف ابھی امریکہ کی جنگ فیصلہ کن مرحلے پر نہیں پہنچی تھی۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سوویت یونین کے خاتمے میں پاکستان کی سرزمین کو میدانِ جنگ بنایا گیا ۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کے نزدیک پاکستان اور پاکستانی فوج کی اہمیت کم ہو گئی اور انہوں نے اس امداد سے ہاتھ کھینچ لیا جو وہ گزشتہ 70سال سے پاکستان کو فراہم کر رہے تھے۔ امریکی امداد کی بندش کے بعد مقتدرہ کے لئے براہِ راست مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کرنا مشکل ہو گیا تو انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرنے کی بجائے پسِ پردہ رہ کر ایک ہائبرڈ نظام لانے کا فیصلہ کیا۔ اور اسی مقصد کے لئے پروجیکٹ عمران خان کا آغاز کیا اور اگلے کم از کم دس برسوں کےلیے عمران خان کو اپنے سویلین چہرے کے طور پر متعارف کرایا۔ لیکن عمران خان میں نہ تو سیاسی بصیرت تھی اور نہ ہی کوئی حکومتی تجربہ تھا۔ چنانچہ پہلے سال ہی 6جی ڈی پی کی شرح سے ترقی کر تی ہوئی معیشت منفی شرح میں چلی گئی اور ملک میں اس خوفناک مالی بحران کا آغاز ہوگیا جو آج نقطۂ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ عمران خان کوچوں کہ معیشت کی بحالی سے زیادہ اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بند کرنے ، صحافیوںکو کلمہء حق کہنے کی سزا دینے اور ملک میں انارکی اور نفرت کو پروان چڑھانے کا زیادہ شوق تھا چناں چہ انہوں نے دوست ملکوں کو ناراض کیا اور پہلے آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر معاہدہ کرکے اور پھر اس سے منحرف ہوکر معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ آج پاکستان کی معاشی تباہی کی ہر کڑی عمران خان کی بیڈ گورننس سے جڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کے سیاسی شعور پر حیرت ہوتی ہے جو اس پس منظر کے باوجود عمران خان کو قوم کا نجات دہندہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔