ہولوکاسٹ میں 527 بچوں کی جان بچانے والے موسیٰ عابدی کون؟

January 26, 2023

موسیٰ عابدی نیس میں پادری کے گھر موجود دفتر میں کام کر رہے ہیں، 1947 کی نایاب تصویر۔

موسیٰ عابدی دمشق کے یہودی کوارٹرز میں 1910 میں پیدا ہوئے، انہوں نے فرانسیسی پادریوں کے اسکول میں تعلیم حاصل کی، 1920 کی دہائی میں وہ پیرس منتقل ہوگئے۔

جب نازیوں نے 1940 میں پیرس پر قبضہ کیا تو موسیٰ عابدی دارالحکومت چھوڑ کر بائیک پہ سفر کرتے ہوئے جنوبی شہر نیس چلے گئے۔

نیس میں ہزاروں یہودی خاندانوں نے پناہ لے رکھی تھی، موسیٰ کی ملاقات ایک اطالوی پادری سے ہوئی جس نے انہیں بتایا کہ نازی فوج یہودی بچوں کو قتل کر رہی ہے۔

1939 میں فرانسیسی ڈاکٹر اوڈیت کی ملاقات موسیٰ سے ہوئی، وہ بچوں کے ایک کلینک میں کام کرتی تھیں۔

1943 میں جرمنی نے نیس شہر پر بھی قبضہ کرلیا، اسی سال موسیٰ عابدی اور ان کی اہلیہ اوڈیت نے’مارسل نیٹ ورک‘ قائم کیا۔

مارسل نیٹ ورک:

اس نیٹ ورک نے مقامی فیملیز، عیسائی رہنماؤں اور بچوں کی پناہ گاہوں کی مدد سے 527 بچوں کی جان بچائی۔

موسیٰ نے نیس کے پادری پال ریمنڈ سے ملاقات کی اور انہیں آمادہ کیا کہ بچوں کو نازیوں سے بچایا جائے۔

پادری نے موسیٰ کو اپنے گھر میں ایک دفتر بنا کر دیا جہاں انہوں نے ہزاروں فرضی دستاویزات، سرٹیفکیٹس اور راشن کارڈ بنائے۔

موسیٰ نے گھر کے دالان میں بچوں کی تفصیلات والی فائلیں جمع کیں تاکہ جنگ ختم ہونے کے بعد یہ بچے اپنے خاندانوں سے دوبارہ مل سکیں۔

بچوں کو گھر بلا کر ان کی نئی شناخت کی تفصیلات یاد کروائی جاتی تھیں تاکہ وہ نازی فوج سے اپنی اصلیت چھپا سکیں۔

کچھ بچے اتنے چھوٹے تھے کہ وہ فرانسیسی نہیں بول سکتے تھے، وہ یہ بھی نہیں سمجھ پاتے تھے کہ ان کے نام کیوں تبدیل کیے گئے ہیں؟

اوڈیت دو بچوں کو فرار کرواتے ہوئے پکڑی گئیں اور انہیں آشوٹز کیمپ بھیج دیا گیا۔ بعد ازاں انہیں جنگ ختم ہونے تک برگن بیلسن کیمپ میں رکھا گیا۔

جنگ کا اختتام:

جنگ ختم ہوئی تو موسیٰ ریڈیو تھیٹر کے نامور نقاد بنے اور انہوں نے دمشق کے یہودی کوارٹرز پر دو کتابیں لکھیں۔

اوڈیت نے شعبہ طب میں نام کمایا اور سماعت سے محروم بچوں کے اسکول میں کام کیا۔

موسیٰ عابدی نے 1995 میں فرانس کی سینیٹ میں کہا کہ جب کبھی میں ان بچوں سے ملتا ہوں جن کیلئے ہم نے معمولی سی کوشش کی تو وہ پوچھتے ہیں ہم آپ کا شکریہ کیسے ادا کریں؟

انہوں نے کہا کہ میرا ردعمل بہت مختصر ہوتا ہے، میں ان بچوں سے کہتا ہوں آپ کو ہمیں شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا، ہم آپ کے مقروض ہیں۔

زندگی کے آخری ایام میں موسیٰ عابدی کی صحت بہت خراب رہی یہاں تک کے وہ نابینا ہوگئے، وہ پیٹ کے سرطان کی وجہ سے 1997 میں انتقال کرگئے۔

اوڈیت نے اپنی زندگی کے آخری دو برس تمام دستاویزات کو اکٹھا کرنے اور خاوند موسیٰ کی کتاب کو مکمل کرنے میں صرف کیے۔

اوڈیت نے 1999 میں یہ کہہ کر خودکشی کرلی کہ میں موسیٰ کے ساتھ ہی مرگئی تھی۔

مارسل نیٹ ورک کے لازوال کارناموں کے متعلق آگاہی دینے کیلئے ہولوکاسٹ میں زندہ بچنے والی ایک بچی آندرے کارسینتی نے ’فرینڈز اینڈ چلڈرن آف عابدی‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔