’مہاجر کیمپ‘ میں دستوری مسائل سے آگہی

January 27, 2023

بڑے بھائی کے نام باقاعدگی سے ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ آ رہا تھا جس کا ایک اچھا ذخیرہ گھر کے اندر موجود تھا جو اَب مہاجر کیمپ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اُس ماہنامے میں اُن دنوں مولانا مودودی سورۂ یوسف کی ایک انتہائی اچھوتے انداز میں قسط وار تفسیر لکھ رہے اوربڑے اہم آئینی اور سیاسی نکات اٹھا رہے تھے۔ اُن میں اللّٰہ تعالیٰ کی حاکمیت کے ہمہ گیر تصوّر، اسلامی نظام میں اقتدار کی حدودوقیود، شہریوں کے حقوق و فرائض اور رِیاست کے اختیارات اور ذمےداریاں پوری شرح و بسط سے زیرِ بحث آ رہی تھیں۔حُسنِ اتفاق سے مجھے مولانا کی تصنیف ’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ اُن کے خیال میں اللّٰہ، رب، عبادت اور دِین کی چار اِصطلاحات حقیقتاً اُس جامع نظریۂ حیات کی نمائندگی کرتی ہیں جو قلب میں ایمان سے شروع ہو کر رِیاست کی تشکیل پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ ’تجدید و اَحیائے دین‘ بھی زیرِمطالعہ آئی جس میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے مختلف ادوار کے مصلحین کے تجدیدی کارناموں کے تقابلی مطالعے سے یہ واضح کیا تھا کہ دورِ حاضر میں اسلام کی تجدید اور ملّی احیا کا کام کن خطوط پر ہونا چاہیے۔ اُنہی کی ایک اور تصنیف ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کا بھی ٹھہر ٹھہر کر مطالعہ کیا جس میں اُنہوں نے متحدہ قومیت کی تباہ کاریوں کا احاطہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو کانگریس میں ضم ہونے سے بچانے اور اِسلامی قومیت کا تصوّر اُجاگر کرنے کی زبردست علمی کاوش کی تھی۔ اُن کی تحریروں نے مجھے بہت متاثر کیا اور میرے اندر یہ امنگ پیدا ہوئی کہ پاکستان پہنچتے ہی اُسے ایک جدید اسلامی ریاست بنانے میں اپنا حصّہ ضرور ڈالوں گا۔اسلامی دستور کی اہمیت پر سب سے پہلا مضمون علامہ محمد اسد نے ماہنامہ ’عرفات‘ کے شمارے جولائی 1947ء میں شائع کیا۔ مولانا مودودی جو اِسلامی نظام پر اذہان کو متاثر کرنے والے مضامین لکھتے آئے تھے، اُنہوں نے ’مطالبہ نظامِ اسلامی‘ کی مہم کا آغاز 1948ء کے وسط میں کیا۔ شدید عوامی دباؤ کے تحت 8 مارچ 1949ء کو وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے دستورساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پیش کی۔ دستورساز اسمبلی کے معزز رُکن اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر عمر حیات ملک نے ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کو دیے ہوئے انٹرویو میں وہ حقائق تفصیل سے بیان کیے کہ اِس کی منظوری میں کیا کیا اور کہاں کہاں سے رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ یہ ایک زبردست اور دُوررس نتائج کا حامل نظریاتی معرکہ تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان، سر ظفراللّٰہ خان، مولانا شبیر احمد عثمانی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، محترمہ شائستہ اکرام اللّٰہ، ڈاکٹر محمود حسین اور میاں افتخارالدین نے یادگار تقریریں کیں اور پاکستان کی اَقلیتوں کو تاریخی واقعات کی روشنی میں یقین دلایا کہ اسلام اُن کی جان، مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور پاکستان کی اِسلامی ریاست اُن کی مذہبی آزادیوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ میں پوری طرح معاونت کرے گی۔ ’قراردادِ مقاصد‘ کی منظوری کے بعد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے جیل سے بیان دیا کہ الحمد للّٰہ پاکستان کی ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور اَب اِس کی اطاعت اور حفاظت شہریوں پر واجب ہو گئی ہے۔1950ء کے آخر میں وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی عبوری رپورٹ پیش کی جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے۔ اُنہوں نے اتفاقِ رائے کی خاطر اُسے دستورساز اسمبلی میں مزید غوروخوض کے لیے پیش کیا۔ اگلے سال نوابزادہ لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے جس کے باعث دستورسازی کا عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔ حتمی رپورٹ وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین نے دسمبر1952ء میں پیش کی۔ اُس پر بھی مشرقی بنگال کی طرف سے بعض اعتراضات اٹھائے گئے۔ اُنہی دنوں پنجاب قادیانی مسئلے پر ہنگاموں کی زد میں تھا اور حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ وزیرِاعظم نے گورنر ہاؤس لاہور میں اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا۔ اُس میں گھنٹوں سوچ بچار ہوتا رہا، مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ تب سیکرٹری دفاع میجرجنرل اسکندر مرزا خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے گئے اور کوئی بیس پچیس منٹ بعد واپس آئے۔ اُنہوں نے حاضرین کو مطلع کیا کہ مَیں نے لاہور گیریژن کے میجرجنرل اعظم کو لاہور میں مارشل لا لگانے کا حکم دے دیا ہے جو اڑتالیس گھنٹوں میں امنِ عامہ بحال کر دیں گے۔ اِس پر وزیرِاعظم اُن کا منہ تکتے رہ گئے۔ ستم گری کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ چند ہی روز بعد گورنرجنرل غلام محمد نے وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنرجنرل ہاؤس طلب کیا اور اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے برطرف کر دیا جنہوں نے دو ہفتے قبل قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کروایا تھا۔ اِن واقعات سے صاف ظاہر تھا کہ سول ملٹری بیوروکریسی بےلگام ہوتی جا رہی ہے۔ اُس نے عوام کے حقِ حکمرانی پر شب خون مارنے کا وطیرہ اَپنا لیا ہے۔خواجہ ناظم الدین کی جگہ محمد علی بوگر۱ وَزیرِاعظم بنائے گئے اور مسلم لیگ کے صدر بھی۔ اُن کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا۔ وہ مارچ1948ء میں اُس وقت نمایاں ہوئے جب قائدِاعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا تھا کہ قومی وحدت کو فروغ دینے کے لیے پورے ملک کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ اِس پر طلبہ نے احتجاج کیا اور گفت و شنید کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ محمد علی بوگرا نے اُس کمیٹی سے کامیاب مذاکرات کیے جس پر قائدِاعظم نے اُن کی صلاحیتوں کی تعریف کی، چنانچہ وہ برما میں پاکستان کے سفیر تعینات کر دیے گئے اور بعدازاں امریکہ میں سفیر کی حیثیت سے اُن کا تقرر عمل میں آیا۔ وہ اَمریکی امداد کے سلسلے میں کراچی آئے ہوئے تھے کہ گورنرجنرل نے اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی۔ بوگرا صاحب نے عہدہ سنبھالتے ہی ایک آئینی فارمولا پیش کیا جسے تاریخ میں ’’محمد علی بوگرا فارمولا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ مشرقی بنگال کے عوام کی امنگوں سے ہم آہنگ اور مجموعی طور پر بہت متوازن تھا۔ وَزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی سے مشرقی بنگال کے ارکان گورنرجنرل ملک غلام محمدپر سخت برہم اور اُن کے اختیارات محدود کرنے کے لیے بڑے بےتاب تھے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)