کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ اور اقدامات

February 07, 2023

کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ دور حاضر میں شاید طویل ترین غاصبانہ، ناجائز اور غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ میں منظور شدہ قرارداد بھی موجود ہے۔ بھارت یہ معاملہ خود اقوام متحدہ میں لے کرگیا تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو جموں و کشمیر کا تنازعہ حل کرانے کے لئے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر گئے تھے۔ دونوں ممالک کے نقطۂ نظر کو سننے کے بعد اقوام متحدہ نے 21اپریل 1948ء کو قرارداد 47منظور کی اور کشمیریوں کی خواہشات اور مرضی کا تعین کرنے کے لئے ’’استصواب رائے‘‘ کے انعقاد کا مطالبہ کیا۔

1949ء کی آئینی شق 370 جموں و کشمیر کو اس کی خصوصی خود مختار حیثیت دیتی ہے۔ بھارت نے 5اگست 2019ء کو غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے آرٹیکل 370کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ آرٹیکل 370نے کشمیر کو آزادانہ طورپر پالیسیاں بنانے اور ان پالیسیوں کو نافذ کرنے کے قابل بنایاتھا۔ اس آرٹیکل نے کشمیر میں بیرونی لوگوں کو زمین حاصل کرنے اور مالکانہ حقوق حاصل کرنے سے بھی روک رکھا تھا ۔ آرٹیکل 35-A ایک علیحدہ آئینی شق ہے جو کشمیر کے مستقل باشندوں کوخصوصی حقوق اور مراعات فراہم کر کے اس کی خود مختار حیثیت کو مضبوط کرتا ہے۔ بھارت کسی قانون کو نہیں مانتا۔ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک انتہائی متنازعہ علاقے کی علاقائی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے نو لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ اقوام عالم کو اب مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے انتخابی نظام میں رد و بدل کر کے ڈھائی لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ کیا جو مودی حکومت کی اکثریتی مسلم خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی گھنائونی کوشش ہے۔ یہ اقدام جموں کی ہندو آبادی اور حکومت کے حق میں تھا، جس نے انتخابی نشستوں کی قرعہ اندازی میں علاقے کی آبادی کو مدنظر رکھنے کے عالمی معیار کی خلاف ورزی کی۔ اب بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ جموں میں ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے سے رہنے والے لوگ بطور ووٹرز رجسٹر ہو سکتے ہیں۔ 5اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور جابرانہ اقدام کا مقصد ہی یی تھا کہ مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔

بھارتی حکومت نے ایک اور انتہائی متنازعہ ڈومیسائل قانون بھی معارف کرایا ہے جو خطے میں 15سال سے زیادہ عرصہ سے رہنے والے ہر ہندوستانی کو کشمیر کی شہریت کے حقوق دیتا ہے۔ ہر ہندوستانی شہری کو خطے میں زمین خریدنے کا اہل بنانے والے نئے قوانین بھی منظور کئے گئے ہیں۔ مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں فوجیوں کی بڑھتی ہوئی تعیناتی، معاشی وسائل پر ناجائز قبضے اور ہنگامہ آرائی مقامی لوگوں کے دل و دماغ کو نہیں جیت سکے گی بلکہ وہاں کی پسماندگی اور عدم اعتماد کے جذبات کو مزید بگاڑ دےگی۔

2019ء میں اپنے ہی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر منسوخ کیا، اس کے بعد سے بھارت وہاں معمول کے حالات کی واپسی کے جھوٹے بیانیے کو بیچنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ لیکن حقیقت بھارت کے جھوٹے دعوئوں سے قطعی مختلف ہے۔ بھارتی حکومت کے غیر لچکدار رویے سے مقبوضہ علاقے میں سیکورٹی کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقے میں تشدد کا خاتمہ ہوگا لیکن بھارت کے تمام دعوے ناکام اور جھوٹے ثابت ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ آرٹیکل 370اور 35A کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہو گئے ہیں۔ حالات کو معمول پر لانے کا بھارتی دعویٰ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی چال ہے۔ بھارت ان جھوٹے دعوئوں سے خطے کی اصل صورتحال کے بارے میں عالمی برادری کو گمراہ کر رہا ہے۔

مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ کو لگانے کی اپنی سیاسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارت کے غاصبانہ قبضے میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہیں لیکن اب وہ اس جبری غلامی کے طوق کو اتار پھینکناچاہتے ہیں۔

بھارتی نظام انصاف بھی مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ کشمیری قیادت اور عوام الیکشن کی آڑ میں بھارتی مذموم عزائم کے حوالے سے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔کشمیر کا تنازعہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ یہ برصغیر کی تقسیم کے ایجنڈے کانامکمل حصہ ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم یکجہتیٔ کشمیر منانے کا مقصد تنازع کشمیر کو کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل کرنے کی حمایت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)