انسان کی سفاکی اور کوا!

February 08, 2023

آغا شورش کشمیری کے شعر

مرےوطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

کے مصداق ،ملک کے ہر عمر ،ہر جنس اور ہر طبقے کے لوگ گھنٹوں ملکی سیاست پربحث کوگویا فرض عین سمجھتے ہیں، بہت کم ایسے ہیں جن کی نظربظاہر چھوٹی مگر دراصل بڑی اور دل ہلادینے والی خبروں پر پڑتی ہے۔جیسےگزشتہ روز کےمقامی اخبارکے مطابق چھانگامانگا میں بڑے بھائی نے لین دین کے تنازع پر بھائی کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی،دونوں شادی شدہ تھے۔دوسری خبر کے مطابق سیالکوٹ چٹی شیخاں میں شادی سے انکار پر ایک ملزم نے پانچ بچوں کی ماں کو قتل کردیا۔ آئیے اس حوالے سے کوے کی زبانی ایک کہانی پڑھتے ہیں ،کوے کا کہنا ہے،’’ہماری چال کا مذاق اڑایا جاتا ہے، میں مانتا ہوں ہماری چال غیر متوازن ہے دنیا میں انسانوں کی آمد سے پہلے ہم شاہانہ وقار کے ساتھ چلا کرتے تھے لیکن جب ہم نے اشرف المخلوقات کے ہاتھوں اپنے بھائی کے وحشیانہ قتل کا ہولناک منظر دیکھا تو دہشت و ہیبت سے ہماری چال بگڑ گئی۔‘‘ یہ اُس کوے کا شکوہ ہے جسے نحوست کی علامت کہتے ہیں۔ ’’قصص الحیوان فی القرآن‘‘( جس کا ترجمہ غضنفر حسین بخاری نے کیا ہے، مصر کے ڈاکٹر بہجت کی تصنیف ہے) میں کوّے کی زبانی انسانی سرشت کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ کوا فخر سے کہتا ہے، ’’جب قابیل اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرکے اس کی لاش کندھے پر اٹھائے ٹھکانے لگانے میں ناکام رہا تو میں نے ہی باامر الٰہی اسے دفنانے کی ترکیب سکھائی تھی! دنیا والوں پر ہمارا سیاہ رنگ اتنا گراں گزرتا ہے کہ وہ اس سے بدشگونی مرادلیتے ہیں لیکن جب خود انسان کا دل سیاہ ہو جاتا ہے تواس کے سامنے ہمارے پروں کی سیاہی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ انسانوں کا عقیدہ ہے کہ کوّے کی آواز منحوس ہوتی ہے۔ میں (کوّا) کہتا ہوں کہ بعض اوقات انسان خود کسی نامبارک منصوبہ بندی میں مصروف ہوتا ہے، جب کوّے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ جاتی ہے تو وہ اس وقت اپنے کرتوت بھول جاتا ہے اور اس کے نتائجِ بد کو کوّے کی آواز کی نحوست قرار دیتا ہے۔ یہ بنی آدم کا پرانا حیلہ ہے اور اپنے جرم کو دوسروں کے سر تھوپ دینا اس کی قدیم عادت ہے۔ دراصل دنیا میں ایسی کوئی مخلوق موجود نہیں جو انسانوں کی طرح اپنی ذات کو فریب دیتی ہو۔’’جب میں انسانی دنیا میں آیا تو بنی آدم کے تصرفات دیکھ کر میرے ہوش و حواس جواب دے گئے اور اس محرومی پر میں نے چیخ چیخ کر اپنی آواز بگاڑ لی‘‘۔ کوے کی داستان کو مزید سننے سے پہلے ایک لمحہ رُک کر سوچتے ہیں کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، وہاں ایک سرکاری افسر سے 8 لگژری گاڑیوں کے ساتھ ہیرے جواہرات، ڈالر، ریال، زیورات، سونے کے بٹن و کف لنکس، لاکرز، کئی پلاٹس ، کراچی و لاہور کے بنگلوں کی دستاویزات برآمد ہوتی ہیں، گھر کا صرف باتھ روم ہی 2مرلے کا ہوتا ہے تو اگر اس انسانی تصرف پر پھر بھی ہمارے اوسان بحال ہیں، تو کیا ہم سے اچھا کوا نہ ہوا کہ انسانی تصرفات دیکھنے سے اُس کےہوش و حواس ایسے گئے کہ اُس نے چیخ چیخ کر اپنی آواز بگاڑ لی۔ کوا آگے کہتا ہے ’’جب ایک مادہ کو بھگانے پر ہم نے مجرم کوّے کو ٹھونگیں مار مار کر رجم کر دیا اور اُسے احترام سے دفنانے لگے تو ناخلف قابیل اپنے بھائی ہابیل کی لاش کندھے پر اُٹھائے ہمیں دیکھ رہا تھا اور یہ نہیں جانتا تھا کہ لاش کا کیا کرے۔ میں نے قابیل سے کہا کہ مت بھولو کہ اگر مشیتِ ایزدی کو لاش کی حرمت ملحوظ نہ ہوتی تو تم قیامت تک اپنے قبیح جرم کے اس بوجھ کو لئے لئے پھرتے‘‘۔ کوے کی کہانی اور اولادِ آدم کی کہانی ابھی جاری ہے۔ کاش اولادِ آدم کے اس طرح قتال پر ہماری چال بدل جاتی کہ ہم بھی کوے کی طرح پھدکتے اور ایک ٹانگ پر ایسے اُچک اُچک کر چلتے جس طرح کوئی دیوانہ دہکتے کوئلوں پر چلتا ہے تو شاید ہم ایسی سفاکی سے باز آجاتے جیسے پاکستان میں سفاک قاتل پیسوں کے لئے انسانی لاش کے 10ٹکڑے کرکے پھینک دیتاہے۔ کوا بتاتا ہے کہ ’’جب قابیل نے مجھ سے تدفین کا طریقہ جان لیا تو پھر میں پرواز کر گیا۔ اس دوران میں نے قابیل کی ندامت بھری فریاد سنی، وہ کہہ رہا تھا (جیسا کہ سورہ مائدہ آیت 31میں ہے) ’’افسوس میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کی تدفین کر سکوں‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)