مایوسی کے عہد میں خوش آئند فیصلہ!

March 13, 2023

مایوسی کے اس عہد میں ہمارے خطے کے لوگوں کیلئے انتہائی خوشی کی خبر یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ یہ اعلان اگلے روز چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چار روز سے جاری دونوں ملکوں کے سکیورٹی حکام کے مذاکرات کے بعد کیا گیا ، ان مذاکرات میں چین نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے ۔ سفارتی تعلقات سے متعلق سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پا گیا ہے ۔ دونوں ملکوں کا تعلقات کی بحالی کا یہ فیصلہ نہ صرف غیر متوقع بلکہ حیرت انگیز ہے اور اس کے نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی سیاست پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس میں پاکستان کیلئے بھی ایک سبق ہے کہ اگر سعودی عرب اور ایران اپنے تعلقات بحال کر سکتے ہیں تو پھر سب کچھ ممکن ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات اگرچہ سات سال قبل ختم ہوئےتھے لیکن دونوں ملکوں کے مابین اختلافات اس سے بھی پہلے موجود تھے ۔ یہ اختلافات خطے میں بالادستی کے حصول کے حالیہ ٹکراو کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں ۔ یہ اختلافات عرب اور فارس کے درمیاں صدیوں سے چلے آ رہے ہیں ۔ سعودی عرب، فارسیوں ( ایرانیوں ) کے نزدیک، خطہ عرب کا بنیادی نشان ہے ، جس سے خطہ فارس کے لوگ شاکی رہے ہیں ۔ یہ اختلافات 1400 سال قبل کی جنگ قادسیہ سے چلے آ رہے ہیں ، جب عرب نے فارس کو شکست دی ۔ فارع یعنی موجودہ ایران کے لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو عربوں کی خلافت پر ہونے والی کشمکش میں بنو امیہ کی بجائے بنو ہاشم کی حمایت کی ۔بعد میں عرب اور فارس کے درمیان اختلافات دو قوموں کے اختلافات کی بجائے تہذیبی مسلکی اور نسلی گئے ۔ پھر یہ اختلافات عربوں اور ایرانیوں کی قومی نفسیات میں نفرت کی شکل میں ظاہر ہونے لگے ۔ تاریخ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ دور میں یہ اختلافات خطے کی موجودہ جیو پالیٹکس میں داخل ہو کر زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر گئے ۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ ایران کو خطے میں سب سے بڑا امریکہ مخالف تصور کیا جاتا ہے اور سعودی عرب کو اس خطے میں امریکی مفادات کا سب سے بڑا محافظ گردانا جاتا تھا ۔یمن کی جنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان خوف ناک فوجی ٹکراو بھی ہوا ، جو اب تک جاری ہے ۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں نے اپنے سفارتی تعلقات بحال کئے ہیں ، جو نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ اس خطے کے عوام کے بہترین مفاد میں ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں یہ صلح چین نے کرائی ہے ، جو دنیا میں امریکی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے اور خود عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے ۔ چین نے امریکہ کے دوست اور دشمن دونوں کو ملا دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین مشرق ِوسطی میں امریکہ کی جگہ لینے کیلئے پیش رفت کر چکا ہے ۔ اس پیش رفت سے یمن میں جنگ بندی بھی ہو سکتی ہے ، جو خطے میں کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔یمن میں جنگ بندی کا مطلب یہ بھی ہے کہ یمن کے امریکہ مخالف حوثی قبائل کو کچلنے کی امریکہ اور اسرائیل کی حکمت عملی غیر موثر ہو جائے گی ۔ اس خطے میں امریکی مفادات کو بہت نقصان پہنچے گا اور نئی صف بندی ہو گی ۔ ایران اور سعودی عرب کی قیادت کا فیصلہ دانش مندانہ ہونے کیساتھ ساتھ بہت جرات مندانہ بھی ہے ۔ اس سے خطے میں نہ صرف جنگ کے خطرات ختم ہو جائیں گے بلکہ مسلم دنیا میںمسلکی کشیدگی کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

چین کی ثالثی میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے ، اسے اس پر سخت ردعمل کا بھی سامنا ہو سکتا ہے ۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ تو یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’سعودی شاہی خاندان امریکہ کی وجہ سے بادشاہت کر رہاہے، امریکہ اس خاندان کی حمایت کرنا چھوڑ دے تو ان کا اقتدار میں رہنا ممکن نہیں ۔‘‘ اس کے باوجود سعودی قیادت نے یہ فیصلہ کیا، جو امریکہ کو یہ پیغام ہے کہ سعودی حکمراں اپنے قومی مفاد میں خود فیصلے کریں گے اور ان فیصلوں کے نتائج کا بھی سامنا کریں گے ۔ اسی طرح عرب فوبیا کا شکار ایرانی قوم کے ممکنہ ردعمل کے باوجود ایرانی حکام کا فیصلہ بھی بہت جرات مندانہ اور قابل ستائش ہے ۔ اس سے پاکستان کو اپنے دو قریبی دوست ممالک میں سے کسی ایک کا چناو کرنے کے مشکل فیصلے سے بھی نجات مل جائے گی اور پاکستان پر امریکی دباو بھی کم ہو گا اور اسے اپنے فیصلے کرنے میں رکاوٹیں کچھ کم ہوں گی ۔ پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات کے حل اور تعلقات کی بہتری میں وہ مشکلات نہیں ہیں ، جو ایران اور سعودی عرب کو درپیش تھیں ۔پاک بھارت اختلافات کی جڑیں اتنی گہری نہیں ہیں ، جتنی سعودی ایران اختلافات کی جڑیں تاریخ میں دور تک جاتی ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تہذیبی ، نسلی ، لسانی اور ثقافتی ٹکراو ایسا نہیں ، جو سعودی عرب اور ایران کے درمیان رہا ۔ ہمارے درمیان تو ایک مسئلہ کشمیر ہے ۔ ایران اور عربوں کے درمیان کشمیر جیسے کئی خطوں پر تنازعات ہیں ۔ ہم اپنے وسائل جنگوں پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے لوگوں پر خرچ کر سکتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت کو بھی اسی طرح آگے بڑھنا چاہئے ۔ خاص طور پر پاکستانی قیادت کو اپنے فیصلے کرنے کیلئے امریکی دباو یا خوف سے نکلنا ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)