میرے پیارے والد محمد اکبر

March 19, 2023

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ابّا، ابّو، بابا کتنے پیارے الفاظ ہیں۔ ایک باپ، جو اولاد کو دنیا میں لانے کا سبب بنتا ہے،پھر ساری زندگی اس کے لیے تگ و دو میں گزار کر اور اس کے مستقبل کو سنوارنے، بہتر بنانے کے لیے زمانے کی سختیاں، صعوبتیں برداشت کرتے کرتے بالآخر قبر میں جا سوتا ہے۔ بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے والدین کا رتبہ عالی شان بنایا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اگرماں کے قدموں تلے جنّت ہے، توباپ جنّت کا دروازہ ہے کہ جو ساری زندگی خود مصائب و آلام سے گزر کر اپنی اولاد کی پرورش کرتا، اسے پالتا پوستا ہے،تو رب کریم نے اُس کا مقام بھی بہت ارفع رکھا ہے۔ اُس کے سامنے اُف تک نہ کرنے کا حکم ہے۔ موجودہ دَورمیں معاشرہ انتشار، افراتفری کا شکار ہے۔

مسلمان اپنی روایات، اسلامی تعلیمات سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔ اللہ کی بندگی کے بعد سب سے بڑی نیکی والدین سے اچھا سلوک ہے، جسے مسلمان یک سر فراموش کرچکے ہیں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حقوق العباد سے متعلق اسلامی کی تعلیمات عام کی جائیں اور خصوصاً والدین کے مقام و مرتبے کے متعلق جو احکامات ہیں، اُنھیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مختلف پروگرامز کے ذریعے عام کریں۔ نیز، معاشرے کے تمام طبقات اس ضمن میں اہم کردار اداکریں، تاکہ مسلم معاشرے میں والدین اور بزرگوں کو اُن کا جائز مقام مل سکے۔

مستنصر حسین تارڑ نے کیا خُوب کہا ہے کہ ’’ماں کے قدموں تلے تو جنّت ہوتی ہے، لیکن باپ کے قدموں میں صرف پھٹا ہوا جوتا ہوتا ہے، جو اپنی اولاد کی خاطر رزق کمانے میں گِھس جاتا ہے۔‘‘ میں جب اپنے والد محمد اکبر کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں، تو یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انھوں نے ہمارے لیے وہ سب کچھ کیا، جو اُن کے بس میں تھا، بلکہ وہ کچھ بھی کیا، جو اُن کے بس میں نہیں تھا۔ اپنے والدین کے اکلوتے ہونے کی وجہ سے اُن کی پرورش بہت ناز و نعم میںہوئی۔ والدین نے اُن کے سارے ارمان پورے کیے، اُن کا گھرانہ بھی خاصا کھاتا پیتا اور خوش حال تھا۔ میرے دادا، محمد عبداللہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی سے نوابوں کے شہر، احمد پور شرقیہ میں مقیم تھے۔ اُس زمانے میں شہر کا ہر قسم کا کاروبار ہندوؤں کے پاس تھا۔

مسلمان برائے نام کاروبار کرتے تھے۔ ایسے میں ہمارے دادا واحد زرگر تھے، جو اس شہر میں سونے چاندی کا کام کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا کہ میرے والد منہ میںسونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ صرف نام ہی کے اکبر نہ تھے، بلکہ حقیقی طور پر بھی بڑے دل، بڑے حوصلے اور صبرو استقامت کے پیکر تھے، ہر زاویئے سے بڑے یعنی اکبر ہی نظر آتے تھے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اُن کی والدہ، یعنی میری دادی اوائل عمری میں داغِ مفارقت دے گئیں، تو دادا نے دوسری شادی کرلی، جس کے بعد میرے والد کوسوتیلی ماں کا ظلم و ستم بھی سہنا پڑا۔

دادا کی زندگی ہی میں میری ولادت ہوئی۔ میری پیدائش سے ایک سال پہلے ہی ہمارے والد کی سوتیلی بہن دنیا میں آئی۔ دادا فوت ہوئے، تو والد صاحب نے سوتیلی ماں اور سوتیلی بہن کی ذمّے داری سنبھال لی۔ دادا کی وفات کےبعد مالی پریشانیوں نے گھیرا تو والد صاحب نے کپڑے کی دکان کھول لی، مگر اپنی افتادِ طبع اور نازو نعم میں بچپن گزارنے کے باعث دکان کے معاملات چلانے میں دشواری ہونے لگی، تو ایک شخص کو صرف خدمات کے عوض برابر کا حصّے دار بنالیا۔ والد صاحب چوں کہ شروع ہی سے دین دار تھے، زیادہ تر وقت اللہ والوں اور علماء کی صحبت میں گزارتے، اس لیے دکان کو کم ہی وقت دے پاتے۔ ہمہ وقت دینی معاملات ہی میں مصروف رہتے۔ ہمیں بھی قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی سختی سے تاکید کرتے۔

والد صاحب کے شب و روز، کاروبار سے بالکل بے پروا ہو کر اللہ اللہ کرنے میں صرف ہونے لگے، تو اس عدم دل چسپی کا اُن کے حصّے دار نے خُوب فائدہ اٹھایا اور دکان پر مکمل طور پر قابض ہوگیا۔ اس دوران والد صاحب نے حج کا قصد کرلیا اور بیت اللہ جانے کے لیے معلومات اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ زادِ راہ نہ ہونے کے باوجود وہ حتمی فیصلہ کرچکے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، حج پر ضرور جائیں گے، حالاں کہ ان دنوں حجازِمقدّس کا سفر انتہائی مشکل تھا۔ صرف بحری جہاز ہی سعودی عرب جانے کا واحد ذریعہ تھا۔ وہ بحری جہاز کے ذریعے حج پر جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ انھیں پیدل حج پر جانے والے ایک قافلے کا علم ہوا۔

انھوں نے فوراً اس قافلے سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اُن پر اور قافلے پر خصوصی رحمت کی۔ وہ کبھی بسوں کے ذریعے، کبھی پیدل سفر کرتے، غاروں میں چُھپتے چُھپاتے، مُلکوں مُلکوں کی سرحدیں پھلانگتے، جان جوکھوں میں ڈال کر مہینوں بعد حجازِ مقدس جا پہنچے۔ اس طرح طویل، صبر آزما سفر کے بعد حج ادا کیا اور اپنی دلی مراد پوری کی۔ ان کے حج پر جانے کے بعد ساری ذمّے داریاں مجھ پر آن پڑیں۔ دکان کا حصّے دار ہر ہفتے چند روپے خرچ کے لیے دے دیا کرتا، جس سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے۔ کہاں بٹیر اور مرغیاں کھانے کو ملتی تھیں اور کہاں اب کھجور یا نمک مرچ کے ساتھ روٹی نصیب ہوتی۔

ان کٹھن حالات میںہماری والدہ نے ہمّت سے حالات کا مقابلہ کیا اور تمام تر مصائب صبر اور حوصلے سے برداشت کیے۔ ان سے ہم نے حقیقی طور پر مشکلات کے باوجود زمانے میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھا۔ والد کی عدم موجودگی اور معاشی تنگی کے باوجود انہوں نے کبھی اُف تک نہ کی اور گھر کا انتظام بطریقِ احسن سنبھالا۔ ہر طرح کی تکالیف سہہ کر ہمیں پالا پوسا اور والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ سات آٹھ ماہ کے بعد والد صاحب حج سے لوٹے، تو گھر کی رونقیں دوبارہ بحال ہوئیں۔ اُن کی اذکار و عبادات سے رغبت دوچند ہوگئی تھی اور انھوں نے دنیا و مافیہا سے کٹ کر صرف مالکِ کائنات سے لَو لگالی تھی۔

ہر وقت زبان پر نعتِ رسول ؐ ہوتی اور آنکھیں اشک بار۔ نبی کریم ؐ کی محبت اور دوبارہ مدینہ منورہ میں حاضری کی تڑپ دیدنی تھی۔ دکان پر قبضے کے بعد کاروبار تو پہلے ہی صفر ہوکر رہ گیا تھا۔ جمع پونجی کوئی تھی ہی نہیں، گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی، تو والد نے پھلوں کا ٹھیلا لگایا، مگر اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، تو ختم کرکے پھلوں کی چھابڑی اٹھا کر محلّے کی گلیوں میں بیچنے لگے۔ مگراُس سے طویل کنبے کے اخراجات کہاں پورے ہونے تھے۔

والد صاحب کے چچا، جو ریٹائرڈ ڈی ایس پی تھے اور والد کے سسر بھی، اپنے بھتیجے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انھوں نے جب والد صاحب کو اس طرح چھابڑی اٹھا کر محلّے محلّے گھومتے دیکھا، تو ان سے کہا ’’چھابڑی نہ اٹھاؤ۔ میں کچھ رقم دیتا ہوں، کاروبار کرلو۔‘‘ مگر وہ کسی کے دست نگر نہیں رہنا چاہتے تھے۔ بطور قرض رقم لینا بھی گوارہ نہ کیا کہ محنت میں کیا عار ہے، یہ تو سنّتِ رسول ؐہے۔ بہرحال، یوں کسمپرسی ہی میں گزر بسر ہوتی رہی۔

والد صاحب انتہائی دین دار اور خوددار شخص تھے۔ مزاج کے قدرے سخت تھے، مگر انتہائی نرم دل اور مہربان و شفیق بھی تھے۔ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر برداشت نہ کرپاتے اور حالات کی تنگی کے باوجود اُس کی مدد کرکے خوش ہوتے۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ حق سچ، فطرت میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے۔ دنیا کی چاہت ان میں ذرّہ بھر بھی نہ تھی۔ کسی کے رعب میں نہ آتے، اور زبان سے کلمۂ حق کے علاوہ کچھ ادا نہ ہوتا۔ اولاد کی خواہش پوری کرنے میں فرحت محسوس کرتے تھے۔

ہم سب کو نماز کی سختی سے تاکید کرتے، فجر کی نماز کے بعد اپنے ساتھ بٹھا کر خود بھی قرآن مجید کا ایک سپارہ پڑھتے اور ہمیں بھی پڑھنے کا حکم دیتے۔ صبح کی نماز کے لیے ہم میںسے کوئی اٹھنے میں ذرا بھی سُستی کرتا تو اس پر پانی ڈال دیتے۔ انھوں نے گھر کے پاس ہی ایک چھوٹی سی کچّی مسجد کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کی ذمّے داری سنبھال رکھی تھی۔ تہجّد کی نماز وہیں ادا کرتے اور پھر صبح کی اذان دیتے اور نماز کے بعد گھر لوٹتے۔ زندگی یوں ہی سرد گرم سہتے گزر رہی تھی۔ مَیں آٹھویں جماعت تک پہنچ چکا تھا اور اپنے اسکول کے اخراجات خود ہی ٹافیاں، بسکٹ اور پینسل، کاپیاں وغیرہ بیچ کر پورے کرتا۔

اسی دوران والد صاحب اچانک بیمار پڑگئے۔ اُن کا علاج معالجہ ہوتا رہا، لیکن دن بدن کم زوری بڑھتی چلی جارہی تھی۔ ایک روز بہت اداس بیٹھے تھے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ والدہ نے پوچھا، تو پہلے تو خاموش رہے پھر گویا ہوئے ’’میرے ابّا اور امّاں مجھے لینے آئے ہیں۔‘‘ جنوری 1969ء کا تیسرا ہفتہ تھا، جمعے کا دن، والدہ سے کہا کہ ’’کپڑے وغیرہ دھولو، کل ہمارے گھر مہمان آئیںگے۔‘‘ یقیناً یہ وہ اشارے تھے، جو اللہ کے نیک بندوں کو قبل از موت ملتے ہیں، مگر ہم ان سے نابلد ہوتے ہیں۔ اُن دنوںخیرپور میرس سے میری ایک بہن اور خالہ زاد بہنوئی ہمارے گھر آئے ہوئےتھے، اگلی صبح انھیں واپس جانا تھا، لیکن والد صاحب نے بصد اصرار روک لیا۔

رات ساڑھے بارہ بجے باتھ روم سے نکلتے ہوئے کم زوری اور نقاہت کے باعث لڑکھڑا کر گرنے ہی لگے تھے کہ بہنوئی نے اُنہیں تھام لیا اور بستر پر لٹادیا۔ بستر پر لیٹتے ہی اس قدر زور سے لفظ ’’اللہ‘‘ کہہ کر پکارا کہ میں دوسرے کمرے سے ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ گھبرا کر اُن کے پاس پہنچا تو اُسی وقت انھوں نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ 25 جنوری 1969ء کو جب ان کا انتقال ہوا، تو مَیں آٹھویں جماعت میں تھا۔ ان کے انتقال کےبعد پورے کنبے کی ذمّے داری مجھ پر آپڑی تو پتا چلا کہ والد کا سایہ کیا ہوتا ہے۔ بلاشبہ، باپ گھنیر چھائوں والا ایک ایسا شجر ہے، جو اولاد کو زمانے کے سب سرد و گرم سے بھرپور تحفّظ فراہم کرتا ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے والد، محمد اکبر کو غریقِ رحمت کرے، اُن کے درجات بلند فرمائے۔( آمین)۔ (محمد مشتاق احمد سیال ،ریٹائرڈ پرنسپل، گورنمنٹ کالج برائے ایلیمینٹری ٹیچرز، بہاول پور)