• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یوں تو انسانوں کے انسانوں کے ساتھ لگ بھگ تمام ہی رشتے جسم میں رُوح کی طرح، ایک الوہی، بہت خُوب صُورت احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں اور یہ ڈور اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ایک کے بعد ایک، نئے آنے والے ہر رشتے کو بھی اپنے اندر پرو لیتی ہے، لیکن ساتھ ہی اتنی کم زور بھی ہوتی ہے کہ جب ٹوٹتی ہے، تو سارے رشتوں سمیت بکھر جاتی ہے۔ بہرحال، یہاں میں اپنے اُن چار معتبر رشتوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں، جو ایک چمکتی دمکتی مالا کے نایاب موتیوں کی مانند میری زندگی کا اٹوٹ حصّہ ہیں۔ جن میں میرے پیارے والد، نیاز احمد قریشی، میری شفیق والدہ، تسنیم کوثر، میرے پُرخلوص سُسر محمد اکبر برکت علی اور میری پیاری ساس، زینب اکبرشامل ہیں۔ 

اپنی مالا کے ان چار نایاب موتیوں میں سے سب سے پہلے میں اپنے والد کا ذکر کروں گی، جو میرے لیے کُل کائنات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے والد، نیاز احمد قریشی سادگی، شرافت اور منکسر المزاجی کا پیکرہیں۔ انھوں نے ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر توجّہ دی اور اُن کی اعلیٰ تربیت کا عکس آج اُن کی ساری اولاد میں نمایاں ہے۔ اُن میں غرورو تکبّر، خودپسندی و خود نمائی بالکل بھی نہیں، خداداد صلاحیتیں ہی اُن کی خوداعتمادی ہے۔ بچپن میں اسکول کا ہوم ورک کروانے میں ہماری بھرپور مدد کرتے اور اُن کی رہنمائی میں کیے ہوئے ہوم ورک پر ہمیں اساتذہ کی طرف سے شاباش ملتی۔ رات کو اسلامی و اصلاحی واقعات اور کہانیاں سُناتے، خوب گُھماتے پِھراتے، قدرتی نظاروں سے روشناس کرواکر اُن کی اہمیت پر غور و فکر کی تلقین کرتے۔

پانچوں وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنے کے علاوہ روزانہ علی الصباح قرآنِ مجید کی تلاوت اُن کا معمول ہے اور ہمیں بھی قرآن مجید سمجھ کر پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ گزشتہ برس ہمارے جواں سال بھائی اچانک انتقال کرگئے، لیکن اس اندوہ ناک سانحے پر انھوں نے نہایت صبر اور اعلیٰ ضبط کا مظاہرہ کیا۔ ہر کسی سے شفقت و محبّت کا برتائو کرتے ہیں۔ 

ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد آج بھی لوگ اُن کی دیانت داری، محنت اور لگن کی تعریف کرتے ہیں۔ مَیں یہاں چند سطروں میں اُن کے خلوص و محبّت، ایثار اور شفقت کا مکمل طور پر احاطہ تو نہیں کرسکتی، مگر اللہ سے اُن کی عافیت اور ایمان بَھری زندگی کی دُعا ضرور کرسکتی ہوں کہ ’’میرے ربّ! میرے والد کو اپنی ذات کے علاوہ کسی کا محتاج نہ کرنا، اور تادیر اُن کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھنا۔‘‘ (آمین، ثم آمین)۔

دمکتی مالا کا دوسرا موتی، میری والدہ، تسنیم کوثرہیں، جنھوں نےاپنی تمام اولاد کو بناوٹ و تصنّع سے پاک ماحول میں پال پوس کر جوان کیا۔ ابّو کی قلیل تن خواہ میں بھی انھوں نے ہمارے اسکول کی فیس اور گھر کے جملہ اخراجات کا بوجھ بڑی دانش مندی اور کفایت شعاری سے اٹھایا، اللہ کی نعمت کی قدردانی اور صبروشکر کا احساس اپنی اولاد میں پیدا کیا۔ گھریلو خاتون ہونے کے علاوہ درس وتدرس سے بھی وابستہ ہیں۔ اُن کا پسندیدہ عمل ہے کہ کہیں سے بھی کوئی اچھی بات سُنتی یا پڑھتی ہیں، تو فوراً آگے بڑھادیتی ہیں، تاکہ ہر کوئی اس سے استفادہ کرسکے۔ 

وہ ہرایک کی خوشی اور غم میں شامل ہونے کی قائل ہیں، خاص طور پر غم کے موقعے پر دوسروں کا دکھ درد بانٹنا عین فرض اورعبادت سمجھتی ہیں۔ اُنھیں کم سِنی ہی میں والد کی جدائی کاغم سہنا پڑا۔پھر شادی کے بعد یکے بعد دیگرے بہن، بہنوئی، بھائی اور والدہ کے انتقال کے بعد اُن کا چہیتا اور جواں سال بیٹا بھی دنیا سے رخصت ہوگیا، بیٹے کی دنیا سے گزر جانے کی چوٹ قلب پر ضرور لگی، لیکن ہمیشہ صبر سے کام لیا۔ کبھی اللہ سے گلہ شکوہ نہ کیا۔ بیٹے کے انتقال کے بعد انھوں نے خود کو رات دن عبادت و ریاضت میں مشغول کرلیا ہے۔ دنیا کی حرص وہوس سے اُن کا دُوردُور تک کوئی تعلق نہیں۔ کم کھانا، کم بولنا، کم سونا، اُن کی زندگی کا کلیہ ہے۔ بلاشبہ، ہمارے والدین ہمیشہ ہمارے دُکھ درد کے ساتھی رہے۔ اُن کی اعلیٰ تربیت اور صبر وشُکر کی فضا ہی میں ہم پلے بڑھے۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کو ہمیشہ خوش و خرّم رکھے۔

میری شادی کے بعد میرا تعلق اپنے دوسرے والدین یعنی اپنے محترم سُسر اور شفیق ساس سے قائم ہوا۔ انہوں نے نہ صرف مجھے، بلکہ اپنی تینوں بہوئوں کو گھر کی ملکائیں اور رانیاں بناکر رکھا۔ میرے سُسر انتہائی شریف النفس، منکسر المزاج، مہمان نواز انسان ہیں۔ ہم سب کو ہمیشہ پیار سے ’’بیٹا، بیٹا‘‘ کہہ کرپُکارتے ہیں۔ رخصت ہوکر سسرال آئی، تو انھوں نے زندگی کے بہت سے زرّیں اصول سکھائے، انتہائی پرخلوص اور مہمان نواز شخص ہیں۔ ہمارے میکے کے ہرفرد کی عزت وتکریم کرتے ہیں اور اُن کا یہ عمل ہم بہوئوں کو قلبی سکون فراہم کرتا ہے۔ گھریلو کام کاج اور ہماری مدد کے لیے کئی ملازمین رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ جس طرح ہمارے سُسر نے ہمیں محبّت وعزّت سے نوازا، اللہ ان کو بھی سُکھ، چین اور عافیت کے ساتھ ہمیشہ خوش و آباد رکھے۔ آمین، ثم آمین۔

میری مالا کا چوتھا اَن مول موتی، میری ساس، محترمہ زینب اکبر ہیں۔ قدرت کے انتہائی خُوب صُورت تراشے ہوئے اس فن پارے نے اپنے والد کو تو دیکھا بھی نہیں، والدہ کے زیرِ سایہ پروان چڑھیں اور اُن کی اعلیٰ تربیت نے اُنھیں اُن کے اصل مقام و مرتبے سے ہم کنار کرکے ایک بااخلاق اور خوب سیرت خاتون کا رُوپ دیا۔ میری ساس صاحبہ تینوں بہوئوں سے ہمیشہ برابری اور بیٹیوں والا سلوک روارکھتی ہیں۔ 

ہرقسم کا رشتہ خوش اسلوبی سے نبھاتی ہیں، ہمیں شادی کے بعد بھی تعلیم کے حصول اور آگے بڑھنے سے کبھی نہیں روکا، البتہ نظم وضبط کے ضمن میں کبھی سمجھوتا نہیں کرتیں، غرباء کا خصوصی خیال رکھتی ہیں۔ صدقہ خیرات کُھلے دل سے کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ہر فرد میرے ساس، سسر کے اوصاف کے گُن گاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ انھیں تادیر سلامت رکھے۔

بلاشبہ، میری زندگی کی مالا کے سچّے موتیوں کی حیثیت رکھنے والی ان ہستیوں کی شرافت، سادگی، اَن تھک محنت اور خلوص و چاہت نے اُن کی اولاد کی زندگی میں چار چاند لگائے۔ تمام تر بہوئوں کے لے میرا یہ پیغام ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے مجازی خدا کے والدین کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک اور محبت و الفت کا رویہ روا رکھیں، بہن بھائیوں سے پیار وادب سے پیش آئیں، تاکہ آئندہ نسلیں بھی ادب واخلاق کی خوشبو سےمعمور ہوں، اور معاشرے میں اچھی روایات فروغ پائیں۔ (سعدیہ افضل، کراچی)

(نوٹ: سنڈے میگزین کے مقبول سلسلے، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے قارئین بڑی تعداد میں اپنے پیاروں سے متعلق دلی جذبات و احساسات پر مبنی تحریریں اشاعت کے لیے بھیجتے ہیں، جو باری آنے پر شایع کردی جاتی ہیں۔ مذکورہ تحریر سعدیہ افضل صاحبہ نے کچھ عرصہ قبل ارسال کی تھی، بعدازاں، معلوم ہوا کہ وہ تحریر کی اشاعت سے قبل ہی رضائے الٰہی سے انتقال کرگئی ہیں۔ 

اس تحریر میں انھوں نے اپنے والدین اور ساس، سُسر سے بھرپور محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ ہم اُن کی تحریر اُن کے لواحقین کی اجازت اور اس دُعا کے ساتھ شایع کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)۔