• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم چار بھائی اور ایک بہن تھے۔ والد صاحب ہماری تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجّہ دیتےتھے۔ جب بڑے بھائی کی عُمر قریباً بیس برس ہوئی، تو اس نے اکثر رات کو دیر سے گھر آنا شروع کردیا والد صاحب اتنی رات گئے،گھر آنے کی وجہ پوچھتے، تو جھٹ جواب دیتا، ’’اپنےدوستوں کے ساتھ تھا۔‘‘ ایک دن حسبِ معمول بھائی رات کو دیر سے گھر لوٹا، تو والد صاحب نے کہا کہ ’’ہم تمہارے دوستوں سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ بھائی نے اُنھیں ٹالنے کی بہت کوشش کی، مگر والد صاحب نے ایک نہ مانی اور کہا، ’’چلو، ابھی مجھے اپنے دوستوں سے ملوائو۔‘‘

آخر کار، بڑا بھائی والد صاحب کو ساتھ لے کر رات تقریباً آٹھ بجے اپنے ایک دوست کے گھر جا پہنچا۔ جا کے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر جواب نہ ملا۔ بار بار کھٹکھٹانے پر بالکونی سے ایک بزرگ نے جھانکا، جو بڑے بھائی کے دوست کے والد صاحب تھے۔ اور اُن سے آنے کی وجہ پوچھی، تو بھائی نے کہا، اپنے دوست سے ملنے آیا ہوں۔ بزرگ نے کہا ’’بیٹا! وہ ابھی سو رہا ہے، آپ اِس وقت اُس سے نہیں مل سکتے، صبح آنا‘‘۔ اِس پر بڑے بھائی شرمندہ سے ہوگئے، تو والد صاحب نے کہا، ’’چلو، آئو بیٹا! اب مَیں تمہیں اپنے دوست سے ملوائوں، جو قریبی گائوں میں رہتا ہے۔‘‘ اور پھر، والد صاحب اور بڑے بھائی والد کے دوست سے ملنے روانہ ہوگئے۔

صبح کی اذان سے ذرا پہلے والد صاحب اور بھائی دوسرے گائوں میں والد صاحب کے دوست کے گھر پہنچ گئے۔ والدصاحب نے بھی جا کےدوست کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر جواب نہ آیا۔ والد صاحب نے ایک بار پھر زور سے دروازہ کھٹکھٹاکر اپنا نام بتایا کہ مَیں فلاں آپ کا دوست ملنے آیا ہوں، مگر دروازہ پھر بھی نہ کُھلا۔ اب بڑے بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، لیکن پھر اُسی لمحے اُن کو دُور سے لاٹھی کی ٹھک ٹھک کی آواز سُنائی دی اور اُس کے بعد دروازہ کُھل گیا۔ ایک بوڑھا شخص دروازے سےباہر آیا اور آگے بڑھ کر والد صاحب کو بھینچ کے گلے لگالیا۔ 

پھر بولا ’’بہت معذرت! دروازہ کھولنے میں تاخیر اِس لیے ہوئی کہ آج ایک طویل عرصے بعد، تم نے اِس طرح میرا دروازہ کھٹکھٹایا، تو مجھے لگا کہ تم یقیناً کسی پریشانی میں ہو، اور تمھیں کوئی حاجت اِس طرح میرے دروازے تک لے آئی ہے، تو مَیں نے فوراً کچھ پیسے اکٹھے کیے، پھر بیٹے کو اُٹھایا کہ شاید تمھیں کوئی اور مدد درکار ہو، تو اِسی لیے دروازے تک آنے میں ذرا دیر ہوگئی۔‘‘ یہ سب سن کر بھائی کی تو آنکھوں میں آنسو آگئے کہ والد صاحب ہمیشہ سمجھاتے تھے کہ دوست وہ نہیں، جو رَت جگے میں تمہارا ساتھ دے، بلکہ دوست وہ ہے، جو ایک آواز پر دوستی کا حق نبھانے چلا آئے۔ کیوں کہ انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے۔

والد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ ’’مجھے کوئی حاجت تمھارے پاس نہیں کھینچ لائی، بلکہ مَیں ایک عملی سبق کے لیے اپنی اولاد کو اِس دروازے تک لایا ہوں۔ مجھے بس اپنے بیٹے کو یہ بتانا تھا کہ اچھا دوست کیسا ہوتا ہے اور یہ کہ دوستوں کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہو، کیوں کہ انسان کے دوست ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں۔‘‘ اِس واقعے کے بعد بڑے بھائی نے اپنے ایسے تمام دوستوں کو چھوڑدیا، جو محض اُن کا وقت برباد کر رہے تھے اور اس دن کے بعد اپنی پڑھائی پر پورا دھیان دینا شروع کر دیا، یہاں تک کہ ایک بڑے افسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔بہرحال، ہمارے والد صاحب نے ایک چھوٹے سے عملی سبق کے ذریعے ہمیں وہ کچھ سمجھا دیا، جو ہم شاید کبھی بڑی بڑی کتابیں پڑھ کے بھی نہ سیکھ پاتے۔ (عبدالرحمٰن، وارڈ نمبر17، محلہ فیض آباد، لیّہ)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں،صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ناقابل فراموش‘‘

٭ زندگی کے نشیب و فراز (ارشد مبین احمد ایڈووکیٹ) ٭ ایک سچّی کہانی (نام و مقام نہیں لکھا) ٭ ایک ناقابلِ فراموش واقعہ (میجر ریٹائرڈ جی این اعوان، نشاط کالونی، لاہور کینٹ) ٭ حضرت سردار صاحب + عجیب وغریب شادی (سائیں تاج دین بٹ، فیصل آباد) ٭ جسے اللہ رکھے + ایک یاد گار واقعہ (پروین عظیم، فیڈرل بی ایریا، کراچی) ٭ کوئی مواخذہ نہیں + بھوکی چڑیا کی فریاد (جمیل احمد اعوان، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ ، لاہور) ٭ حکیم صاحب کی کہانی + تھانے دار کا گھوڑا + جادو تماشا + نیکی اور بدی (ظہیر انجم تبسم، جی پی او، خوشاب) ٭ تقدیر کا لکھا + کچھ توجّہ ادھر بھی (عذرا محمود، راول پنڈی کینٹ) ٭ مجبوری (نرجس مختار، خیرپور میرس) ٭ اورنگ زیب لالہ(حافظ بلال بشیر) ٭ غم کا پہاڑ (م-ع-ا، بھکر) ٭ میری پیاری سہیلی (فرزانہ مسکان ناصرہ، ژوب، بلوچستان) ٭ زندگی یا کوئی طوفان (ملک محمّد اسحاق راہی، صادق آباد)۔