دو شخصیات کا تقابل

March 19, 2023

مجھے گزشتہ چند دنوں کے دوران لاہور میں عمران خان کے گھر کے باہر موجود ہزاروں ڈنڈا بردار کارکنان اور ان کی جانب سے ریاستی پولیس سے کی جانے والی مزاحمت دیکھ کر یہ یقین ہو گیا ہے کہ ان کو یہاں پارٹی قیادت کی جانب سے تعینات کیا گیا ہے ، ان کو ہدایات ہیں کہ کسی بھی طرح عمران خان کو گرفتاری سے بچانا ہے جس کیلئے جان بھی دینا پڑے تو گریز نہیں کرنا،ان کارکنان میں خواتین بھی شامل تھیں ، اس دوران اگر ایک بھی کارکن پولیس سے مزاحمت کے دوران ہلاک یا زخمی ہوجاتا تو عمران خان کو حکومت اور ریاست کے خلاف ایک نیا بیانیہ بنانے کا موقع مل جاتا ۔ اس کا ثبوت تحریک انصاف کے کارکن ظلِ شاہ کی ہلاکت ہے جسے بنیاد بنا کر ریاست مخالف ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی ، تحریک انصاف اس قتل کا الزام پولیس پر جبکہ پولیس اس قتل کا الزام تحریک انصاف پر عائد کررہی ہے ، دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے گرفتاری سے بچنے کیلئے ریاست کے خلاف شدید ترین مزاحمت دیکھ کر مجھے آسلام آباد کی احتساب عدالت میں میاں نواز شریف سے وہ ملاقات یاد آرہی ہے جس میں میاں نواز شریف اوران کی صاحبزادی لاہور سے پیشی کیلئےپہنچے تھے۔ یہ دونوں ہر پیشی کیلئےصبح چار بجے رائے ونڈ سے نکلتے اور آٹھ بجے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوتے ، میاں نواز شریف پانامہ اور ایون فیلڈ کیسز میں 80مرتبہ احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور ریاستی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کیا ، سزا بھی ہوئی۔ میاں نواز شریف اپنی اہلیہ اور ان کی صاحبزادی اپنی والدہ کو برطانیہ میں شدید بیماری کی حالت میں چھوڑ کر گرفتاری دینے کیلئے پاکستان پہنچے ، جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ ریاست اور آئین پر یقین رکھتے تھے ، انھیں معلوم تھا کہ ناانصافی یقینی ہے لیکن پھر بھی اپنے آپ کو سزا کیلئے پیش کیا ۔ دوسری جانب دیکھیں عمران خان ریاست اور سسٹم پر بالکل عدم اعتماد کرتے نظر آرہے ہیں ، حال ہی میں ان کی پارٹی کے کئی رہنما گرفتار بھی ہوئے ہیں اور چند دنوں میں ضمانت پر رہا بھی ہوئے ہیں لیکن نہ جانے خان صاحب کو ایسا کیا ڈر ہے کہ وہ گرفتاری دینے یا جیل جانے کے بالکل خلاف ہیں ، گزشتہ دنوں اسلام آباد کی پولیس جس کیس میں ان کو گرفتار کرنے آئی تھی وہ تو ایک چھوٹاسا مقدمہ تھا ، توشہ خانہ کیس کا ،کوئی دہشت گردی یا قتل کا مقدمہ تو نہیں تھا کہ برسوں جیل میں رہنا پڑتا،اس کیس میں تو زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹوں میں ان کی ضمانت ہوجاتی تو پھر کیوں ان کو پورے پنجاب اور خیبر پختوانخواہ سے عوام کا جم غفیر بلوا کر اپنی حفاظت کروانا پڑی ،جبکہ گلگت بلتستان سے تو پولیس اہلکار بھی زمان پارک عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کیلئےپہنچے تھے ،پوری دنیا نے وہ مناظر بھی دیکھے کہ کس طرح تحریک انصاف کے کارکنان ڈنڈابردار پولیس فورس پر پیٹرول بم پھینکتے رہے ، ان ہی کارکنان کو دنیا نے پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کو پیٹرول بم سے آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھا ،پھر پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کی وہ فون کال بھی منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا تھاکہ جو لیڈر اس وقت اپنے بندے لے کر زمان پارک نہیں پہنچے گا اسے پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا ، یعنی انتخابی ٹکٹ کا لالچ دے کر عوام اور کارکنوں کو ریاست سے مقابلے کیلئےلایا گیا ،اس وقت پاکستان کے خلاف عالمی سازشیں عروج پر ہیں، یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط کے بدلے پاکستان سے میزائل پروگرام منجمد کرنے کیلئےکہا جائے گا ،آگے جاکر ایٹمی پروگرام پربھی بلیک میل کیا جاسکتا ہے ، یعنی پاکستان کو معاشی طور پر اتنا مجبور کردیاگیا ہے کہ اس چند ارب ڈالر کے بدلے میزائل اور ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کی شرائط عائد کی جاسکتی ہیں ، قوم اپنی آنکھیں کھولے اور پاکستان کے خلاف جو گریٹ گیم کھیلا جارہا ہے اسے اپنے اتحاد اور یکجہتی سے ناکام بنانے میں کردار ادا کرے ، اوورسیز پاکستانی زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھیجیں تاکہ وطن عزیز عالمی طاقتوں کے معاشی جال سے نکل سکے۔